خدارا، شہداء میں فرق نہ کریں
از قلم سرفراز حسینی۔
6 ستمبر یوم دفاع کی مرکزی پروقار تقریب کا اہتمام جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں کیا گیا جس میں آرمی چیف، حکومتی عہدیدار، اعلی فوجی و سول آفیسرز اور تمام جماعتوں کی سیاسی شخصیات ، ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے پزاروں معززین سمیت پاک آرمی کے شہید آفیسرز اور جوانوں کی فیملیز نے شرکت کی، پروگرام میں ارمی شہدا کی عظمت اور کارناموں کو اجاگر کرنے کے لئے ڈوکومینٹریز، ملی نغموں، 65،71 کی جنگوں کے کلپس اور دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشنز کی تصویری اور فلمی جھلکیوں کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں جوانوں کی بہادری، دشمن کے خلاف عزم، پاک وطن کی حفاظت کے تجدید عہد کو بہت خوبصورت طریقہ سے پیش کیا گیا اور یقینا قوم کے یہ شہید فرزندان حق رکھتے ہیں کہ انہیں ایسے ہی شایان شان طریقہ سے خراج تحسین پیش کیا جائے اور وہی قومیں زندہ کہلانے کا حق رکھتی ہیں جو اپنے شہدا کو اور ملک و ملت کے لیۓ ان کی بےمثال قربانیوں کو یاد رکھیں۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہویے مہمان خصوصی چیف آف آرمی سٹاف نے اندرونی بیرونی تمام دشمنوں کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کیا اور قوم کو یقین دلایا کہ دشمن چاہے سرحد کے اس پار ہو یا اس پار اسے شکست فاش سے دوچار کیا جاے گا۔
قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ شاید ہی کوئ وقت ایسا ہو جب وطن عزیز کو مختلف قسم کے خطرات درپیش نا ہوں، 1948 میں ہی کشمیر کے مسئلہ پر پہلی پاک بھارت جنگ، 1965 اور 71 کی فل سکیل جنگیں، آدھے ملک کا جدا ہونا، 80 کی دہائ میں سیاچین کی جنگ، افغان جنگ، 90 کی دہائ کے آخر میں کارگل کی جنگ، اور اس کے بعد سے لے کر آج تک آئے روز کنٹرول لائن پہ ہونے والی جھڑپیں جس میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان بیرونی محاذوں کے ساتھ ساتھ بد قسمتی سے ہم نے ہر دور میں مختلف قسم کے سنگین اندرونی محاذ بھی کھول کے رکھے، مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں کو شروع سے ہی شودر سمجھا جس کا انتہائ نتیجہ بغاوت، مکتی باہنی، بھارتی سازش اور پھر بنگلہ دیش کی شکل میں سامنے آیا۔
روس کے افغانستان پہ حملے اور بڑی طاقتوں کی آپسی لڑائ جو ہم نے جہاد اسلام کے نام پہ ایک سپر طاقت کی گود میں بیٹھ کر لڑی اور بھیانک نتیجہ پہلی سٹیج پہ بے لگام جہادی تنظیموں، کلاشنکوف، ہیروئن کلچر، لاکھوں افغان مہاجرین اور بعد میں فرقہ پرست تکفیری تنظیموں، بد ترین دہشتگردی، بین الاقوامی خطرناک دہشت گردی کے نیٹ ورکس حتی کہ ملکی سلامتی کے خطرے کی شکل میں آج تک بھگت رہے ہیں اور اس وقت پاک افواج جہاں سرحدوں پہ دشمن کے خلاف چوکس ہیں وہیں پچھلے دس سال سے ان دہشت گردوں کے خلاف اندرونی جنگ میں مصروف عمل ہیں۔ اس اندرونی محاذ پہ جہاں پاک فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے آفیسرز اور جوانوں نے جان کی قربانیاں دیں وہیں وطن عزیز کے معصوم، بے گناہ اور محب وطن 70 ہزار سے زائد سویلین شہری دہشت گردوں کے بم دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بنے، ان ظالم وطن اور دین دشمن عناصر کے ایک ایک حملے میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، یہ جنگ جہاں وطن عزیز کے خلاف تھی وہیں خاص طور پہ ایک ہی مسلک کے افراد کو خصوصی طور پہ اور دیگر اقلیتوں، مزاروں درباروں سے عقیدت رکھنے والے اور عام مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ وطن اور اسلام دشمن دہشتگردوں نے کراچی، کوئیٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، پارہ چنار، گلگت، اندرون سندھ و بلوچستان، پنجاب کے شہر، فاٹا، غرض ہر جگہ کشت و خون کے بازار کو گرم کیا، صرف کراچی میں ایک ہی مسلک کے سینکڑوں ڈاکٹرز سمیت اعلی پروفیشنل افراد کو شہید کیا گیا، کوئٹہ کے ہزارہ افراد پہ اپنے ہی شہر، صوبہ میں باہر نکلنا تقریبا نا ممکن بنا دیا گیا، ایک ایک واقعہ میں سینکڑوں افراد شہید و زخمی ہوئے، ہزاروں زخمی، لا تعداد گھر بار چھوڑنے پہ مجبور، ڈیرہ اسمعیل خان میں ظلم و بربریت کی وہ داستان کہ نسل کشی بھی چھوٹا لفظ محسوس ہو، جنازوں میں دھماکے، پارہ چنار کے تین سالہ محاصرہ، جنگ، ہزاروں قتل و زخمی اور اس کے بعد حالیہ پے در پے بم دھماکوں میں تقریبا 600 افراد کی شہادت اور زخمی، ملک کا کونسا شہر جہاں مساجد، عبادت گاہوں میں عام نہتے افراد کو خون میں نا نہلایا گیا ہو، داتا دربار،پاکپتن شریف، بری امام، عبداللہ شاہ غازی، لعل شہباز قلندر سمیت درجنوں مزاروں اور درباروں پہ خون کی ہولی، بازاروں، سڑکوں، پارکوں میں بم دھماکے، تعلیمی اداروں پہ خود۔کش حملے، کمسن بچوں اور طالبعلموں کا قتل عام، کوئیٹہ تافتان مستونگ روڈ پہ کئی دفعہ اور گلگت چلاس کے مقام پہ شناختی کارڈ اور دیگر مزہبی پہچان دیکھ کر نہتے مسافروں کا قتل عام، صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی بس پہ حملہ، بوہریوں کا قتل، احمدیوں کی عبادت گاہوں پہ حملے، سندھ میں ہندؤوں اور کے پی کے میں سکھوں پہ زمین تنگ، مسیحی برادری پہ مسلسل حملے، ۔۔۔۔۔ غرض کس کس کا نوحہ لکھوں، ایک داستان رنج و الم ہے کہ جو تھمنے کا نام نہی لے رہی اور اس ظلم و بربریت کا نشانہ کون بن رہے ہیں جو حقیقی معنوں میں اس دھرتی کے فرزند ہیں، محب وطن ہیں،وطن اور انسانیت سے محبت کرتے ہیں، جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں قتل ہونے کے باوجود کبھی نا ہتھیار اٹھائے اور نا ملک کے خلاف کبھی کوئ لفظ بولا، جو اس دھرتی کے حقیقی فرزند اور محافظ ہیں۔
لیکن افسوس کہ ریاست کی جانب سے آج تک ان شہداء، ان کے یتیم بچوں، بیواؤں، بوڑھے والدین، لواحقین کے بارے کبھی نہی سوچا گیا، کچھ قلیل واقعات میں مالی امداد کر کے بس سمجھا گیا کہ ریاست کی ذمہ داری پوری یو گئ۔ کاش کہ آج کے دن کی۔طرح کوئ دن ان سویلین شہدا کے لیے بھی مختص کیا جاتا، ان کی قربانیوں، وطن اور اسلام دوستی کو بھی یاد کیا جاتا، ان کے لواحقین کی ویلفئیر کے لیے بھی ریاستی سطح پہ کوئ فاؤنڈیشن بنتی، ان کی تصاویر بھی سرکاری سطح پہ ملک کے چوکوں اور سڑکوں پہ آویزاں کی جاتیں، ان کے قاتلوں کو بھی اسی طرح نشان عبرت بنایا جاتا جیسے سکیورٹی فورسز سے نبرد آزما دہشتگردوں کو بنایا جاتا ہے، ان کے بچوں کو بھی ایسے ہی سرکاری ملازمتیں، مفت اعلی تعلیم، رہائش، سکیورٹی دی جاتی تاکہ کسی کو یہ فرق اور احساس محرومی نا ہوتا کہ ملک و ملت کے خلاف ہونے والی دہشتگردی کی اس جنگ میں سکیورٹی ادارے اور عوام دو مختلف طبقے ہیں۔
کاش کہ آج کے پروگرام میں ہی مساجد، عبادت گاہوں، بازاروں، پارکوں، سڑکوں، شناخت کر کے بسوں سے اتار کر مارے جانےبوالوں اور عقیدہ نظریہ، مسلک، مزہب کی بنیاد پہ موت کی نیند سلا دیے جانے والے محب وطن عام شہریوں، ڈاکٹرز، وکلاء، پروفیسرز، دانشوروں، علماء، طالبعلموں کی قربانیوں کو بھی یاد کیا جاتا، ان کے لواحقین کو بھی مدعو کیا جاتا، ان کے لیے بھی ترانے بجائے جاتے، ان کے احترام میں بھی فوجی سول قیادت اکٹھا ہو کے خراج عقیدت پیش کرتی، انہیں بھی نشان حیدر، تمغہ جرات، تمغہ بسالت کا حق دار قرار دیا جاتا، ان کے قاتلوں کو بھی اسی طرح نشان عبرت بنانے کا عزم مصمم۔کیا جاتا۔ وطن۔ کے خلاف اس اندرونی محاذ پہ اگر سکیورٹی اداروں اور عوام کا دشمن ایک ہی ہے تو پھر ایک ہی محاذ کے شہداء سے دو طرح کا رویہ کیوں۔۔
پاکستان زندہ باد
شہدائے پاکستان پائیندہ باد۔