بلاگ

مُکھی ہاؤس: محل سے میوزیم تک

کچھ گھر ویران ہوتے ہوئے بھی آنکھوں کو موہ لیتے ہیں۔ جہاں ہمیشہ خاموشی بستی ہے، سناٹے کا راج ہوتا ہے اور کوئی مکین وہاں نہیں رہتا۔ پھر بھی ان میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ ان کی ویرانی آنکھوں کو نہیں چبھتی اور خاموشی روح کو نہیں ڈستی۔

ایک ایسے سکون کا احساس ہمیں ان گھروں میں محسوس ہوتا ہے جس کی تلاش ہر انسان کو رہتی ہے۔ آپ جیسے ہی ان گھروں میں داخل ہوتے ہیں تو ایک پراسرار خاموشی ہر طرف سے گھیر لیتی ہے، ایک نہ ختم ہونے والا سناٹا برسوں سے ان گھروں کے ہر کونے میں بسا ہوا ہوتا ہے۔ میں آج ایک ایسے ہی گھر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے بام و در اس انتظار میں ہیں کہ گھر کے حقیقی رہنے والے شاید کسی دن لوٹ آئیں، مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔

فلسطین کے مشہور و معروف شاعر محمود درویش نے لکھا تھا کہ "گھر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پینے کا نام ہے۔” مگر گھر تو ماں کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی لوری سننے کا بھی نام ہے۔ ایک ایسا ہی گھر جسے اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے۔ یہ گھر آج بھی نظر رکھنے والی آنکھوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اور دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ گھر حیدرآباد میں ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے مکھی ہاؤس کے نام سے مشہور ہے جسے ‘مکھی محل’ بھی کہتے ہیں۔

میں نے جیسے ہی مکھی ہاؤس میں قدم رکھا ایک بڑا سال ہال میرے سامنے تھا، اس ہال میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔ حیدرآباد کی گرمی جو مارچ کے ماہ سے ہی شہریوں کو پریشان کرنا شروع کرتی ہے، مگر مکھی ہاؤس میں اس کا زور کم ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگا۔ ایک پرسکون خاموشی جو کئی دہائیوں سے اس گھر میں کسی فرد کی طرح رہ رہی ہے وہ ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہے۔ جہاں آپ کے پاؤں کی آہٹ بھی واضح سنائی دیتی ہے۔ اگر آپ کسی سے مخاطب ہوتے ہیں تو آواز کی گونج اسی ہال میں سنائی دیتی ہے۔

یہ عمارت 1920 میں اس وقت کی مشہور شخصیت جیٹھانند مکھی نے اپنی خواہش کے مطابق تعمیر کروائی تھی، جسے انہوں نے گھر کا نہیں بلکہ مکھی محل کا نام دیا تھا، اور یہ واقعی ایک محل سے کم نہیں ہے۔ جیٹھانند مکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری انتطامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔ اسی مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مکھی باغ بھی تھا مگر اب اس باغ کے کوئی بھی آثار دکھائی نہیں دیتے، جہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔ اس شاہکار گھر کی تعمیر کے سات برس بعد جیٹھانند مکھی 1927 میں انتقال کر گئے۔

وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے بہتے دریا کا رخ کبھی انسان کے حق میں تو کبھی اس کے خلاف ہو جاتا ہے۔ برصغیر کی تقیسم کے بعد جو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا وہ سالہا سال تک جاری رہا۔ شاید ان گھروں کے در و دیوار کو کبھی یہ اندازہ نہیں رہا ہو گا کہ وہ تنہا رہ جائیں گے اور ان گھروں کی کہانیاں صرف ہم لوگوں سے زبانی ہی سنتے رہیں گے، لیکن مکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور گھر میں مقیم تھا۔

یہ 1957 کا زمانہ تھا جب انہیں اس شہر کو چھوڑ کر جانا پڑا۔ جیٹھانند مکھی کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور دو بیٹے یہاں پر رہ رہے تھے، مگر انہیں یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ یہاں مزید رہے تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں اس محل نما گھر کو خیرباد کہنا پڑا اور یہ خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان چلا گیا

کسی پرسکون شہر میں ایک عالیشان گھر قبضے سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟ مکھی ہاؤس کے شب و روز بھی کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔ یہاں پر کسی زمانے میں ہندوستانی سفارت خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ایف سی کا ہیڈ کوارٹر بھی رہا، جبکہ اسے کے نچلے حصے کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

حیدرآباد کے شہر نے اس وقت اپنا سکون کھو دیا جب 1988 میں یہاں لسانی فسادات ہوئے تھے۔ انہی دنوں مکھی ہاؤس کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ گھر کے دروازے، کھڑکیاں اور کمروں میں رکھا فرنیچر جل کر خاک ہو گئے تھے۔ مگر اس گھر کے نصیب میں شاید اچھے دن لکھے تھے اس لیے آگ کے شعلوں کی گرمی سہنے، اور ہر وہ مصیبت جو اسے تباہ کرنے کے لیے تھی، اسے برداشت کرنے کے باوجود بھی آج مکھی ہاؤس سلامت ہے۔

2009 میں سندھ حکومت کے محکمہء آثارِ قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد 2013 میں مکھی خاندان نے اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا اور اسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے بعد میوزیم میں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی، چنانچہ اب اسے ایک میوزیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے

مکھی ہاؤس ایک دو منزلہ عمارت ہے، جس میں 12 کمرے اور دو بڑے ہال ہیں۔ نذر آتش ہو جانے کے بعد دیواروں پر کیے گئے نقش و نگار بھی مٹ گئے تھے مگر چند بچ جانے والے نقوش کو دیکھ کر دیواروں اور چھت پر اسی قسم کے نقش و نگار بنائے گئے ہیں، تاکہ اس کی قدامت برقرار رہے۔

موٹی دیواروں میں کافی کھڑکیاں اور دروازے بنائے گئے ہیں، جن میں شیشم اور ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہر کمرے کی دیوار میں الماریاں نصب کی گئی ہیں، روشندان بنائے گئے ہیں۔ اس دور میں جو فن تعمیر کے رجحانات تھے، انہیں برقرار رکھتے ہوئے گھر کو بنایا گیا ہے۔ مگر اس گھر کی خاص بات یہ کہ اس کا ایک مرکزی گنبد بھی ہے جو اسے تمام عمارات سے ممتاز بناتا ہے، اور اسے دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کشادہ کمرے اور رہداریاں بھی گھر کی زینت میں اضافہ کرتے ہیں۔ عمارت کی تعمیر میں اینٹ کے بجائے بلاکس کا استعمال کیا گیا ہے

 میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو بھی یہاں آئے تھے۔ اگر اس گھر کی دیواروں کی زبان ہوتی تو یہ ہمیں بتاتیں کہ یہاں کیا کیا ہوتا رہا ہے۔ وہ ستم جو اس عمارت نے جھیلے ہیں اور وہ خوشیاں جو اس کے حصے میں آئی ہیں وہ سب ہم اچھی طرح سے جان پاتے، مگر گھر کی دیواریں بولتی نہیں، وہ صرف اسے سہارا دیتی ہیں تاکہ چھت ان کے لیے چھاؤں کر سکے اور گھر کے افراد محفوظ رہیں۔ اب یہاں پرانی یادوں کی تتلیاں اڑا کرتی ہیں۔

گھر میں موجود فرنیچر کو بھی اسی انداز سے رکھا گیا ہے، مگر اس میں ایک خامی یہ ہے کہ لائٹنگ کا سسٹم موجودہ دور کا رکھا گیا ہے جو کہ اس گھر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے اسے بھی اسی دور کے حساب سے رکھا جائے تو یہ عمل کافی بہتر ہوگا۔

اس گھر میں ان لوگوں کی یادیں بسی ہیں جن میں سے کافی اب اس دنیا میں نہیں رہے، مگر یہ گھر ایک ایسا تاریخی ورثہ بن چکا ہے جس کی حفاظت نہ صرف شہریوں پر بلکہ حکومت پر بھی لازم ہے تاکہ یہ دوبارہ کسی زوال کا شکار نہ ہو، کیونکہ اس طرح کی عمارات اب حیدرآباد میں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔

میں نے مکھی ہاؤس کا ہر حصہ دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ آج ہم جیٹھانند مکھی کو یاد کرتے ہیں، مگر ان گمنام مزدورں اور ان ہاتھوں کو کیوں یاد نہیں کرتے جن کا خون پسینہ اس گھر کے بام و در میں شامل ہے، جن کے بنا یہ محل نما گھر تعمیر کرنا ناممکن تھا۔ یہ گھر کن کن مزدوروں نے بنایا تھا، ان کے بارے میں ہمیں کوئی نہیں بتاتا اور نہ ہی کوئی ان کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ وقت کی دھول میں وہ سارے نام اور کردار کہیں کھو گئے ہیں، جنہوں نے ایک ایسی عمارت کو حسن بخشا ہے جسے آنے والے نسلیں بھی سرہاتی رہیں گی۔

میرے قدم جب تک اس گھر سے باہر نکلے تب تک شہر کی آنکھوں میں شام کا سرمہ اتر چکا تھا۔ مجھے ‘میٹ جان ڈو’ فلم کے کردار جان ڈو کی تقریر یاد آنے لگی جس میں اس نے کہا تھا،

"خواتین و حضرات!

میں ہی وہ شخص ہوں، جسے آپ جان ڈو کے نام سے جانتے ہیں۔ میں نے یہ نام اس لیے رکھا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ نام مجھے بیان کر سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک اوسط انسان کو بیان کرتا ہے اور وہ میں ہوں، وہ میں ہوں، میں ہی تھا جس نے کہا تھا کی کرسمس کی رات شہر کے سٹی ہال والی عمارت سے کود جاؤں گا۔

"ہم ایک عظیم خاندان ہیں، ہم ہی وہ بہتر لوگ ہیں، جو اس زمین میں ہل چلاتے ہیں، ہم آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔ ہم فصل اگاتے ہیں، کانیں کھودتے ہیں، کارخانوں میں کام کرتے ہیں، کتابیں رکھتے ہیں، جہاز اڑاتے ہیں اور بسیں چلاتے ہیں، ہم سب جان ڈو ہیں”۔

وہ سب مزدور بھی جان ڈو ہوں گے جن کے ہاتھوں کی بدولت ایک گھر محل بنا اور ایک محل عجائباتِ عالم کی فہرست میں شامل ہو کر تاریخ میں محفوظ ہوگیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close