بلاگ

سکھر میں خوبصورتی اور خوشی کی تلاش

جب ہم سکھر میں داخل ہوئے تو سورج غروب ہونے کو تھا۔ میں اپنے تین دوستوں کے ساتھ تھا جن میں سے ایک ناول نگار، ایک شکاری اور ایک سی ایس ایس افسر تھا جو خود کو وزیرِ موسیقی کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔ ہم نے کراچی سے لاہور جاتے ہوئے یہاں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔

میں نے اصرار کیا کہ ہم ایک دن شہر کی سیر و سیاحت میں گزاریں جہاں میں نے بچپن کا زیادہ عرصہ گزارا تھا۔ میرے ساتھی زیادہ پرجوش نہیں تھے کیونکہ زیادہ تر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اندرون سندھ بنجر اور بیزار کن ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

سندھ کا نام ‘سندھو’ سے نکلا ہے جو سنسکرت میں سمندر کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور اس عظیم دریا کے لیے بھی مناسب ہے جو کہ سندھ کے دل سے بہتا ہوا ہریالی اور خوشحالی کو قائم رکھتا ہے۔

بیراجوں کی تعمیر، خاص طور پر سکھر بیراج نے دریا کے سندھیوں کی آمدنی پر اثر کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

سکھر میں برطانوی راج کے اثر کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ برٹش راج میں اس شہر نے لاڑکانہ اور شکارپور کی شان و شوکت اپنے نام کرتے ہوئے بے پناہ ترقی کی۔

سکھر بیراج اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر سے سکھر نے بالائی سندھ میں تجارت اور بیوروکریسی کے مرکز کے طور پر ایک اہم مقام حاصل کیا

سکھر بیراج کسی انجینئرنگ شاہکار سے کم نہیں ہے۔ 5 ہزار فٹ طویل بیراج 1932 میں مکمل ہوا اور یہ اپنی ساتھ نہروں سے 10 لاکھ ایکڑ زمین سیر آب کرتا ہے۔

سکھر بیراج کی تعمیر سے سندھ میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کے بعد بڑی تعداد میں پنجابی، بلوچی اور پٹھان ہجرت کر کے اندرون سندھ میں بسنا شروع ہوئے۔

کراچی کے برعکس، یہاں تمام قومیتوں کے لوگ اس طرح سے گھلے ملے رہتے ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا لب و لہجہ بھی ایک ہی ہے اور اندازِ رہن سہن بھی علاقے کا مقامی ہی ہے۔

یہاں تک کہ اندرون سندھ میں پٹھانوں کے قبیلے کو سندھی پٹھان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دریائے سندھ کے بائیں کنارے لب مہران پارک ہے، جو سکھر کے شہریوں کی پسندیدہ تفریح گاہ ہے۔ عام دنوں میں یہاں فیملیز کو کھانے کے اسٹالوں کے گرد اور کشتی میں دریا کی سیر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ہم برٹش دور کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے۔ حالیہ تزئین و آرائش کے بعد کمرے بھڑکیلے مگر بے روح ہو چکے تھے۔

دیوار پر ٹنگے فریم میں شمالی پاکستان کے کسی آبشار تصویر محفوظ تھی۔ کھڑکیوں پر موٹے کالے پردے لٹکے ہوئے تھے۔ بجلی کے بار بار بریک ڈاؤن کی وجہ سے میونسپلٹی کو عوامی مقامات پر بجلی کے استعمال کو محدود کرنا پڑا ہے

جب ہم اگلی صبح ڈائننگ روم میں جمع ہوئے تو ناشتے کے لیے طرح طرح کے آملیٹ ہمارے منتظر تھے۔ ہماری پہلی منزل معصوم شاہ جو مینارو تھی جو مغل بادشاہ اکبر کے گورنر معصوم شاہ کے دور میں واچ ٹاور کے طور پر کام کرتا تھا۔

ہم شہر کے مرکز میں واقع بازار ‘نیم کی چاڑھی’ کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچے۔

ہم نے گاڑی پارک کی اور ایک چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہوئے جو مصروف دکانوں میں کھو سا گیا تھا۔

فیملیز کی ایک بڑی تعداد احاطے میں آرام کر رہی تھی جس میں ٹاور کے علاوہ ایک بارہ دری اور قبرستان بھی ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ معصوم شاہ نے 1582 میں ٹاور کی تعمیر کا حکم دیا لیکن دورانِ تعمیر ان کی وفات ہوگئی، اور ان کو ادھورے ٹاور کے سائے میں دفنایا گیا

ان کے بیٹے نے 1607 میں ٹاور کی تعمیر مکمل کروائی۔ نگران نے ہمیں بتایا کہ ٹاور 84 فٹ اونچا ہے اور اس میں 84 زینے ہیں۔ ہم نے اپنے جوتے اس کے حوالے کر دیے اور اوپر چڑھنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ہم آخرکار ایک تنگ دروازے سے ٹاور کے اندر داخل ہوئے۔ گول سیڑھیاں بہت اونچی اور تنگ تھیں۔

اندر بجلی کا کوئی انتظام نہیں تھا اور روشنی کا واحد ذریعہ چھوٹی کھڑکیاں تھیں۔ ایک ہی وقت میں لوگ نیچے بھی اتر رہے تھے، اس لیے ان کے لیے جگہ بھی بنانی پڑتی۔

اوپر پہنچنے پر ہمیں ایک بار پھر کھڑے ہونے کے لیے عورتوں اور بچوں سے نمٹنا پڑا۔ اوپر عورتیں ایک چھتری کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں اور بچے اوپر نصب لوہے کی جالی سے لٹک رہے تھے۔

اوپر سے نظارہ حیرت انگیز تھا۔ آپ یہاں سے زیادہ تر سکھر دیکھ سکتے ہیں۔ جامع مسجد، سکھر بیراج اور دریا، گھنٹہ گھر، آدم شاہ جی ٹکری (ٹیلا) اور دور دراز تک پھیلا ہوا شہر۔ میں اس شہر کو سالوں سے جانتا ہوں مگر اس کی موجودہ صورت نہیں پہچان سکتا

نظارے دیکھنے اور تصاویر کھینچنے کے بعد ہم نیچے اتر کر اپنی کار کی طرف بڑھے۔ ہمارے دوست کے گارڈ نے اس مقام پر آنے کی یادگار کے طور پر سووینئر خریدنے کے لیے اصرار کیا۔ وہ ناول نگار کو ایک دکان پر لے گیا، جو کراچی کے اتوار بازار کی دکانوں کی طرح تھی۔

دکان میں موجود لوگ ہمارے گروپ کو متجسس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دکاندار نے مجھ سے پوچھا کہ آیا میرے ساتھ موجود ‘صاحب’ منسٹر ہیں۔

پہلے تو میں نہیں سمجھا پھر جلد ہی احساس ہوا کہ وہ سی ایس ایس افسر دوست کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو سفید شلوار قمیض، اجرک اور رے بین کی سنہری عینک پہنے ہوا تھا۔

میں نے ہنستے ہوئے دکاندار کو کہا کہ یہ وزیرِ موسیقی ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ‘منسٹر صاحب’ میرے ساتھ ایک تصویر کھنچوائیں گے؟ شکاری نے سنا اور اس کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی

دریائے سندھ بہت خاموش اور پر سکون دکھائی دے رہا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ پانی کچھ عرصے سے مستحکم ہے مگر 2010 کے سیلاب کے دوران سکھر میں ہائی الرٹ تھا اور پانی کی سطح کا ہر صبح جائزہ لیا جاتا تھا۔

شہر دریا کے بائیں کنارے تک پھیل چکا ہے۔ ہم یہاں سادھو بیلو جانے کے لیے آئے تھے جو دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک جزیرے پر واقع اٹھارہویں صدی کا ایک ہندو مندر ہے۔

ایک داستان کے مطابق ایک سادھو جن کا نام بابا بن کھنڈی تھا، وہ 1823 میں اس جزیرے پر ہندو مت کی تبلیغ کے لیے آکر بس گئے۔ سادھو نے اس وقت کے حکمران میر سہراب خان کا دل اپنی عقل و دانش سے جیت لیا تھا اس لیے یہ جزیرہ ان کو تحفے کے طور پر دے دیا گیا تھا۔

ہم کشتی میں سوار ہوئے۔ ہمارے برابر میں ایک ہندو یاتری بھی بیٹھا تھا جس کے ہمراہ ایک عورت اور ایک بچی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اس آستانے پر پابندی کے ساتھ آتا ہے اور آج اپنے ہمراہ بیوی اور پوتی کو بھی لایا ہے

ایک طرف میں سکھر بیراج کو دیکھ سکتا تھا اور دوسری جانب لینسڈاؤن برج کو جو سکھر کو روہڑی سے ملاتا ہے۔

اگر آپ خوش قسمت ہیں، تو آپ کو گدلے پانی میں اندھی ڈولفن کی جھلک بھی نظر آ سکتی ہے جن کی نسل اب خطرے میں ہے۔

مندر کے پجاری نے ہمارا استقبال کیا۔ میں احاطے کے بیرونی حصے پر موجود ماربل کے نفیس و دلکش کام کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا تھا۔

داخلی راستے کے ایک طرف ماربل کی دو ایسی تختیاں تھیں جن پر نقوش و نگار کے ذریعے آنے والوں کو ان کی اعمالوں کے نتائج سے خبردار کیا گیا تھا۔

ان میں سے ایک منظر میں برہنہ گنہگاروں کو ہولناک طریقے سے سخت اذیت دی جا رہی ہے اور دوسری جانب نیک لوگ جنت کے دروازے کے آگے قطار بنائے کھڑے ہیں۔

میں نے پہلے کبھی بھی اندرون سندھ کے کسی مندر میں اتنی مفصل نقاشی نہیں دیکھی۔

جب ہم اندر داخل ہوئے تو راہداری کے دونوں طرف بالکونیاں تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں راجھستان آگیا ہوں۔

پجاری پھر ہمیں آحاطے کے اندر لے گئے جہاں ماربل فرش پر شِو لنگ رکھا ہوا تھا۔ دیواروں اور چھتوں پر انتہائی عمدہ اور نفیس دستکاری نے مجھے حیرت زدہ کردیا تھا، پر زیادہ روشنی نہ ہونے کی وجہ سے میں صحیح تصاویر نہیں کھینچ پایا۔

میں باہر آگیا اور ستونوں پر کی گئی نقش و نگاری کو دیکھنے لگا جو کہ سورج کی روشنی میں دمک رہے تھے۔

جب پجاری کو پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ ایک ناول نگار بھی ہے تو وہ ہمیں جزیرے کے آخر میں موجود ایک لائبریری میں لے گئے۔

احاطے میں بہت سارے کمرے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ کمرے میلے کے دوران یہاں آنے والے ہزاروں یاتریوں کی رہائش کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

نگران نے ہمارے لیے لائبریری کا دروازہ کھولا۔ کمرے میں بہت ساری کھڑکیاں تھیں لیکن سب بند تھیں۔

جیسے ہی انہوں نے لائٹ کا سوئچ آن کیا تو ہم نے خود کو کتابوں سے بھری ایک لائبریری میں پایا جو پرانے وقت کی یاد دلا رہی تھی۔

لائبریری میں زیادہ تر کتابیں ہندو مذہب پر تھیں۔

ناول نگار نے مہمانوں کی کتاب کھول کر صفحے پلٹنا شروع کیے۔ پہلے صفحے پر ضیاء الحق کے دستخط موجود تھے، جو کہ ہمارے خیال میں کافی غیر امکانی مہمان تھے۔ ہم اور زیادہ حیران تب ہوئے جب ہم نے ہندوستانی ناول نگار وکرم سیٹھ کا نام دیکھا۔ وہ حال ہی میں یہاں آ چکے تھے

جب ناول نگار نے کتابوں کے ساتھ اپنا بھرپور وقت گزار لیا تو ہم باہر آئے اور ندی کے کنارے ٹہلنے لگے۔

جزیرے پر نیم، ببول، پیپل اور کئی دیگر مقامی اقسام کے درخت ہیں جن کے نام مجھے نہیں آتے۔

وہ منظر ایک پوسٹ کارڈ تصویر کے لیے بالکل بہترین تھا- پرسکون اور پرامن، ایسی جگہ جہاں آپ نیچے بیٹھ/لیٹ کر کسی اور چیز کی پرواہ کیے بغیر ساری شام گزار دیں۔

ہم نے جلدی جلدی جزیرے پر موجود باقی چھوٹے مندروں کا بھی دورہ کیا جو ہنومان، گنیش اور دیگر سے منسوب تھے۔

کشتی سے میں نے ندی کے دائیں جانب ایک قبرستان دیکھا۔ کشتی والے نے بتایا کہ یہ جگہ ستین جو آستان یعنی ‘سات کا آستانہ’ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

ہم نے اس جگہ جانے اور اس کی تاریخ کو دریافت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم لینسڈاؤن برج سے ڈرائیو کرتے ہوئے گئے۔ لینسڈاؤن برج 1889 میں تعمیر ہوا اور اس کا نام ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لینسڈاؤن سے منسوب ہے۔ برج کے نیچے آپ زندہ پیر کا مزار بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اس برج کے ساتھ کئی طرح کی فرضی داستانیں وابستہ ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جن برطانوی انجینیئرز نے یہ برج ڈیزائن کیا تھا وہ اس برج کی مضبوطی کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے، اس لیے جو پہلی ٹرین اس برج سے گزری وہ سزائے موت کے منتظر قیدیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جب ٹرین کامیابی کے ساتھ گزر گئی تو برطانوی سرکار نے ٹرین میں سوار تمام قیدیوں کی سزائیں معاف کردیں۔

اور ہاں۔ لوگوں میں 1965 کی جنگ کے دوران اس کی بقاء کے بارے میں بھی بہت سارے قصے مشہور ہیں۔ یہ برج ہندوستانی بمباری کا ایک اہم ہدف تھا۔

ان کے مطابق زندہ پیر برج کے اوپر چڑھ کر بموں کو پانی میں جانے کا اشارہ کرتے تھے۔ کسی کے خیال میں وہاں ارد گرد کہیں ایک چابی موجود ہے جس کے ذریعے برج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے

ہم ڈرائیو کرتے ہوئے مزار تک پہنچے اور اینٹوں سے بنی داخلی دیوار کے سامنے نیم کے درخت کے نیچے اپنی گاڑی پارک کی۔

وہاں سے سیڑھیاں ہمیں مزار کے داخلی راستے کی جانب لے گئیں۔ ہم وہاں کے نگران سے ملے جو کہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ صدیوں پہلے یہ جگہ اس وقت لوک قصوں میں لازوال ہوگئی جب سات نیک عورتوں نے اس جگہ کو اپنی آخری آرامگاہ بنایا تھا۔

ایک داستان کے مطابق ایک مہاراجہ ان کو اغواء کرنا چاہتا تھا۔ اس سے بچتے ہوئے وہ اس جگہ پہنچیں لیکن کہیں بھی پناہ نہ ملنے پر انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے خدا سے دعا کی، جس کے بعد وہاں زمین پھٹی اور ان ساتوں کو اپنے اندر نگل گئی۔

وزیرِ موسیقی نے پوچھا: "اور مہاراجہ؟”

نگران اس سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ ”اس کے بارے میں کیا؟”

وزیرِ موسیقی نے پوچھا کہ ”زمین نے اس کو کیوں نہیں نگلا؟”

نگران کو اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ اس نے ہمیں احاطے کا داخلی راستہ دکھایا جہاں پر آج بھی علامتی قبریں موجود ہیں۔

صرف عورتوں کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ یہ مزار عورتوں میں بہت مشہور ہے جو یہ مانتی ہیں کہ اس آستانے پر آکر ان کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔

ہم ٹیلے کے اوپری حصے کی طرف بڑھے۔ وہاں اوپر ایک قبرستان تھا اور جہاں سے دریائے سندھ بھی نظر آرہا تھا۔

قبریں پیلے رنگ کے پتھروں سے بنی ہوئی ہیں جن پر خوبصورت نقوش کندہ ہیں۔ نگران نے بتایا کہ ان میں سے ایک قبر اس دور کے بکھر کے گورنر میر ابوالقاسم کی ہے۔

وہاں ایک خوبصورت محراب بھی موجود ہے، جس کے آگے شاید قدیم وقت میں نظارے کے لیے جگہ ہوا کرتی ہوگی۔ دیوار اور محراب کو نیلے رنگ کی ٹائلوں سے مزین کیا گیا تھا

اپنے لاہور کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے ہم ہائی وے کی جانب روانہ ہوگئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دوست نے مجھے ان جگہوں کو کھلے ذہن سے دیکھنے کو کہا تھا، ورنہ لوگ، عمارتیں اور یہاں تک کہ آسمان اور نظارے، سب ہی کچھ ادھورے اور خامیوں سے بھرپور نظر آنے تھے۔

میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ سکھر کے اس یادگار دورے نے مجھے خوشی سے بھر دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close