بلاگ

پاکستان اور بھارت میں اس سال موسم گرما قیامت کیوں ڈھا رہا ہے؟

پاکستان اوربھارت میں اس سال موسم گرما قیامت ڈھا رہا ہے اور خطے میں اوسط درجہ حرارت میں 5سے10ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جوماہرین کے نزدیک انتہائی تشویشنا ک ہے دونوں ہمسایہ ممالک کے بڑے شہر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے یہ صورتحال دور دراز صحرائی علاقوںمیں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں ہے.

اس طرح کی گرمی میں کچھ خطرات تو ایسے ہیں جن کا لوگوں کو ٹھیک طرح سے علم بھی نہیں شدید گرمی سے بھارتی ریاست بہار میں 14 جبکہ اڑیسہ میں 4 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ دارلحکومت دہلی میں گرمی کی شدت سے پرندوں اور جانوروں کے مرنے کی بھی اطلاعات ہیں آخرہمارا خط بجلی کی سی تیزی کے ساتھ آگ کا گولہ کیوں بنتا جارہا ہے؟ اس کے عوامل میں پچھلے 30/40سالوں میں شہروں کا بغیرمنصوبہ بندی کے پھیلاؤ ‘ جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی‘شہروں میں گاڑیوں‘ایئرکنڈنشنگ اور دیگر مشینوں سے پیدا ہونے والی گیسوں اور حرارت کے علاوہ عمارتوں کے طرزتعمیر میں بڑے پیمانے پر کنکریٹ کا استعمال درجہ حرارت شامل ہیں .

اس کے علاوہ سمندروں کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے ذمہ دار سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک ہیں جن کی شپنگ لائنز‘ساحلوں پر بڑے پیمانے پر دھاتوں‘کنکریٹ اور شیشے کے استعمال سے بنائی جانی والی بڑی عمارتوں‘ساحلی شہروں کے قریب تیل صاف کرنے والے کارخانوں اور فضائی ٹریفک میں بہت زیادہ اضافے کے ذریعے سمندراور خطے کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافہ کررہے ہیں مگر ”برادراسلامی“ممالک سے ہم اس ہرجانہ کلیم نہیں کرسکتے بھارت اور پاکستان کی دوسری جانب چین جیسا دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک ہے مگر ان سب عوامل کے باوجود ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے درجہ حرارت میں اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس میں آنے والے وقت کے ساتھ مزید اضافے کی توقع ہے .

عالمی سطح پر طے شدہ میعارات کے مطابق کسی بھی ملک کے مجموعی رقبے کا25فیصد تک جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 1990 میں ملک کے کل رقبے کا 6اعشاریہ5 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا جو کہ سال2021 میں کم ہو کر 4اعشاریہ8 فیصد رہ گیا ہے جبکہ2024تک اس میں مزید کمی آئی ہے بڑے شہروں کے گرد ونواح میں آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے ”اربن فارسٹ“کا رقبہ خطرناک حد تک سکڑگیا ہے زمینوں کے کاروبار سے پیسہ کمانے میں حکومتیں نے خوب مال بنایا مگر آج اس کی قیمت عام شہریوں کو اداکرنی پڑرہی ہے ‘حکومتوں کے لیے سب سے بڑا چور دروازہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ1894ہے جس کے تحت وہ کسی بھی زمین کو کبھی بھی قبضے میں لے سکتی ہیں ذاتی مفاد کے منصوبوں کو”مفاد عامہ“کے منصوبے قراردے کر سب کچھ پاک صاف کرلیا جاتا ہے جنگلات اور کھلے زرعی علاقوں کے خاتمے کی بھاری قیمت پرکوڑیوں کے بھاؤ والی زمینیں کروڑوں روپے روپے میں اپنے فرنٹ مینوں یا سرکاری اداروں کے ذریعے فروخت کرکے رہائشی منصوبوں کو فروغ دیا اربنائزیشن کی وجہ سے جہاں پاکستان جیسے ملک زرعی ملک کو گندم جیسی بنیادی جنس درآمد کرنا پڑتی ہے وہیں دالوں کی پیدوار تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ‘ڈیری مصنوعات اور گوشت کی ضروریات پوری کرنا بھی چیلنج بنتا جارہا ہے اس لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ موسمی اثرات کو روکا جاسکے کیونکہ اگر موسمی اثرات کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیئے جاتے اور گرمی کی شدت میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو آنے والے چند سالوں میں پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہونے کی وارننگ ماہرین کئی سالوں سے دیتے آرہے ہیں لاہور جیسے شہر میں زیرزمین پانی 550فٹ سے زیادہ نیچے جاچکا ہو جو کہ1980کی دہائی میں محض70/80فٹ تھا .

موسموں کی شدت سے آنے والی تباہی ایٹمی جنگ سے بھی خطرناک ہوسکتی ہے اس لیے حکومتوں کو جنگی بنیادوں پر اقدامات شروع کرنا ہونگے دودہائیاں گزرگئی اس لیکرکو پیٹتے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب اسمبلی سے ”روڈا ایکٹ“منظور کروایا تھا تو ناچیزنے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں اس منصوبے کو لاہور کے ”ڈیتھ وارنٹ“پر دستخط کے مترادف قراردیتے ہوئے عالمی اداروں کی رپوٹیں منسلک کرکے ایک خط لکھا تھا جس میں سفارش کی گئی تھی کہ ”روڈا“کے تحت دریائے روای کے گرد لاکھوں ایکٹر رقبے پر نیا شہر بسانے کی بجائے اسے ماڈل فارم ایریا ڈکلیئرکیا جائے اور کے لیے باقاعدہ قانون سازی کروائی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی حکومت لاکھوں ایکٹر پر مشتمل اس اراضی کا اسٹیسٹں تبدیل نہ کرسکے ہم تین ‘چار نسلوں سے لاہور کے رہائشی ہیں 1980تک لاہور کی شہری آبادی ملتان روڈ پر سکیم موڑ‘فیروزپورروڈ پر چونگی امرسدھو‘جی ٹی روڈ پر شاہدرہ اور کینٹ کی جانب فوٹریس اسٹیڈیم کے پل سے پہلے‘ کینال روڈ پر دھرپورہ پر ختم ہوجاتی تھی ان حدود سے آگے نواحی دیہات شروع ہوجاتے تھے جو نہ صرف لاہور کو تازہ سبزیاں‘دودھ اور گوشت فراہم کرنے کرتے تھے بلکہ شہرکو ایک محفوظ ماحولیاتی حصار میں بھی لے رکھا تھا ان دیہاتوں نے مگر اس حصار کو مفاد پرستوں نے ذاتی مفادات کے لیے توڑدیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں .

شہر کے اندر بھی درختوں کی بہتات تھی اس کے بعد ”ترقی“کا دور شروع ہونے سے درختوں کا جس بے دردی سے قتل عام کیا گیا اس کا اندازہ پنجاب حکومت کی لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی جانی والی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق پنجاب حکومت نے ٹھوکر سے مال روڈ تک نہر کے اطراف سڑکوں کے صرف ایک توسیعی منصوبے میں 70ہزار سے زیادہ درخت کاٹے جن میں کئی سوسال سے بھی زیادہ پرانے تھے یہ صرف ایک توسیعی منصوبہ ہے ‘ ملتان روڈ کے دونوں اطرف درختوں کی قطاریں موجود ہوتی تھی آج محض چند آرائشی پودوں کے کچھ نظرنہیں آتایہ حکومتوں کی ناکامی ہے کہ انہوں نے اربنائزیشن کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیئے اگر ہر ڈویژنل ہیڈکواٹرمیں ایک بڑا ہسپتال‘یونیورسٹی‘میڈیکل اور انجنئیرنگ کالجوں کے کمپیس ‘چھوٹے شہر جو بڑے شہروں سے روڈ اور ریل روٹوں سے پہلے ہی جڑے ہوئے تھے سفرکے دونوں ذرائع کو بہتر بنادیا جاتا تو اربنائزیشن کو75فیصد تک روکا جاسکتا تھا مگر ہر حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی وفاق اور صوبوں کے تحت 1980کی دہائی میں عالمی اداروں کی مدد سے چلنے والے ”رولرسپورٹ“پروگراموں کے اعدادوشمار کے لیے ناچیز نے کئی مرتبہ سرکاری اداروں سے رابط کیا ہے مگر کسی کو معلوم نہیں کہ ان کا ریکارڈ کہا ں ہے تاہم آزاد ذرائع کا دعوی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے تحت چلنے والے”رولرسپورٹ“پروگراموں پر عالمی اداروں سے ملنے والی امداد کاپچاس فیصد بھی خرچ کیا جاتا تو ہمارے دیہات کسی بھی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے دیہات سے پیچھے نہ ہوتے مگر اس کا تو ریکارڈ تک غائب کردیا گیا ہے.

ہم ببول ”کیکر“کو بے کار درخت سمجھتے ہیں مگرحال ہی میں افریقہ اور بھارت میں ”کیکر“کے جنگلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے یہ ممالک ”کیکر“سے حاصل ہونے والی گوند کا 90فیصد سے زیادہ دنیا کوبرآمد کرتے ہیں اسی طرح دنیا میں ”نیم “کی مصنوعات اور پتوں کے پاوڈرکا تقریبا80فیصد بھارت سپلائی کررہا ہے‘ ’ایلوویرا“جیل اور پتے کے پاوڈر سمیت اس پر لگنے والے بیج کی چائے کا 100فیصد کے قریب بھارت برآمد کررہا ہے‘”بکائین “کے پتے اور چھال بھی میک اپ انڈسٹری اور دواسازانڈسٹری میں بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے ”نیم “کا درخت اوسطا تین سال میں جبکہ ”بکائن“ کا درخت2سال تیار ہوجاتا ہے مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری حکومتوں کا زور درآمدشدہ پودوں پر کیوں ہے؟جو ہماری آپ وہوا سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے نہ صرف زمین کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پانی بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں.

اس سال آنے والی ہیٹ ویو اور ایکسٹریم ویدر پیٹرن عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والوں سالوں میں موسموں کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا عالمی اداروں کی رپورٹوں کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کسی ایٹمی جنگ سے زیادہ خطرناک صورتحال کا شکار ہیں طرزتعمیر میں تبدیلی اور کنکریٹ کے جنگل بدلتے موسم کے لیے موزوں نہیں ہیں ہنگامی بنیادوں پر ایسے مقامی درخت بڑے پیمانے پر لگانے کی ضرورت ہے جو جلد بڑھتے ہیں ان میں ”دھریک‘نیم‘بکائین“سرفہرست یہ ایک ہی نباتاتی خاندان سے تعلق رکھنے والے والے درخت ہیں جو محض دو سال میں تیار ہوجائے ہیں اسی طرح ”امل تاس“بھی تیزی سے پروان چڑھنے والے درختوں میں سے ہے.

حکومتوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے زمینداروں کو ایجوکیٹ کریں کہ وہ دیسی کیکر‘نیم‘بکائین‘امل تاس اور ایلوویرا سے کسی بھی روایتی فصل سے زیادہ منافع کماسکتے ہیں ان سے حاصل ہونے والی مصنوعات کی پوری دنیا میں بے حد ڈیمانڈ ہے ”نیم“کا پھل عالمی مارکیٹ میں سونے سے بھی قیمتی ہے کیونکہ یہ ذیابطیس ‘جگر‘امراض قلب سمیت بہت ساری امراض میں اکسیرسمجھا جاتا ہے جبکہ ”نیم‘ایلوویرا‘امل تاس اور کیکر کاگوند‘ پھلیاں‘پتوں کا پاوڈر میک اپ انڈسٹری اور ادویات میں استعمال ہورہاہے یہ سارے پودوں کو شروع کے چند ہفتوں تک دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے زمین میں جڑیں پکڑنے کے بعدانہیں پانی یا دیکھ بھال کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے پاکستان اس کو انڈسٹری کا درجہ دے کر اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی کماسکتا ہے اور ان سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 14 مئی سرائیل کے وجود کا ناجائز دن

اگرچہ پاکستان اور بھارت میں گرمی کی لہر کوئی نئی بات نہیں لیکن نئی بات یہ ہے کہ ہر سال درجہ حرارت میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے مئی میں جون جولائی 50ڈگری سینی گریڈ درجہ حرارت الارمنگ ہے ماہرین کے مطابق 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے 40 ڈگری کے درمیان درجہ حرارت سے” ہیٹ کریمپس“ اور گرمی کے باعث توانائی میں کمی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ 40 سے زیادہ کا مطلب ایسا خطرہ ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے امریکی محکمہ موسمیات”ایکیو ویدر“ کے سربراہ ڈاکٹر جوئلی مائر کہتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت جو درجہ حرارت چلتا آ رہا ہے اس میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے ابھی اس میں بہت تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کا اثر الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہو گا بھارت اور پاکستان جیسے خطوں میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گا.

یعنی شدید گرمی کی صورتحال پاکستان ‘بھارت کے صحرائی خطوں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں درجہ حرارت انسانی برداشت کی حد سے زیادہ ہورہا ہے بڑے شہروں میں کنکریٹ کے جنگلوں کے درمیان شدید گرمی سے زیرزمین واٹرٹیبل جس تیزی سے نیچے جارہا ہے کیا ہم خطرے کی اس گھنٹی کو سن پارہے ہیں؟کیا ہم اپنی آنے والی نسل کو ایک ایسا ملک دینا چاہتے ہیں جہاں موسموں کا تغیرسب کچھ ختم کردے گا؟پانی‘خوراک ‘جانور نہیں ہونگے تو انسان کیسے زندہ رہے گا؟ اپنے لیے نہ سہی اپنی آنے والی نسل کے لیے آوازاٹھائیں کیونکہ اب وقت زیادہ نہیں بچا‘آج ہم جن گاڑیوں ‘ایئرکنڈنشنگ اور دیگر مشینوں کا استعمال اپنی تن آسانی کے لیے کررہے ہیں 25/30سال میں ان سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں‘کاربن اور حرارت سے ہمارے بچوں کے سانس لینے کے لیے آکسیجن ہوگی نہ پینے کے لیے پانی‘خوراک سمیت باقی چیزوں کو عیاشی سمجھیں….یہ کوئی ڈراؤنی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے اب ہم پر ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنی ہیں یا بچاؤ کے لیے علمی اقدامات؟

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close