بلاگ

‘اس کی جان بچاؤ ورنہ

سول ہسپتال کراچی میں سرجری کے پروفیسر امجد سراج میمن بتاتے ہیں کہ چند سال قبل مسلح افراد کا ایک گروہ ان کے پاس ایسے شخص کو لے کر پہنچا جس کے سر پر شدید چوٹیں لگی تھیں، اور مطالبہ کیا کہ اس شخص کا دماغ، جو وہ پلاسٹک کی تھیلی میں تھامے کھڑے تھے، واپس لگا کر صحتیاب کر دیا جائے۔

ڈاکٹر میمن نے scidev.net کو بتایا کہ ”ہمیں دھمکایا گیا کہ بات مان لی جائے ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔”

مشتعل افراد اور جذباتی تیمارداروں سے نمٹنا، ہسپتال میں توڑپھوڑ اور یرغمال بننا، مریضوں اور ان کے ورثاء کے ہاتھوں جونیئر ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور نرسوں کا زبانی و جسمانی تشدد کا نشانہ بننا، سینیئرز کا جونیئرز سے جارحانہ رویہ اور حال ہی میں دیکھی گئی جونیئرز کے ہاتھوں سینیئرز کی پٹائی اور یرغمالی، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو کبھی مقدس سمجھے جانے والے میڈیکل پیشے میں آج عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

انسانیت بچانے اور اس کی خدمت کرنے والوں کو آج خود مشتعل افراد سے بچانے کی ضرورت ہےمختلف مطالعوں کے مطابق پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں شعبہء ایمرجنسی اور وارڈز میں موجود ڈاکٹرز اور دیگر ملازموں پر مریضوں کے ورثاء کا زبانی و جسمانی تشدد عام بات ہے۔

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر تحقیق کی جس میں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈکس، ہسپتال کے دیگر غیر میڈیکل ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے حکام سے انٹرویوز شامل کیے گئے۔ اس تحقیق سے مسئلے کی سنگینی ظاہر ہوئی۔

شعبہ ظب سے وابستہ افراد نے بتایا کہ انہوں نے خود کو خوفزدہ، لاچار اور کم ہمت محسوس کیا۔ پاکستان کے ہسپتالوں میں تشدد سے متعلق نومبر 2015 میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج پہلے کی گئی دیگر تحقیقات سے کافی مطابقت رکھتے ہیں۔

لیکن کچھ ایسے بھی کیسز تھے جن میں تشدد نے شدت اختیار کر لی تھی۔

لاہور کے میئو ہسپتال میں شعبہ جراحی کے سابق سربراہ پروفیسر ماجد چوہدری یاد کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے کلاشنکوف بردار مذہبی سیاسی جماعت کے 350 مشتعل افراد کو تسلی دی تھی، جن کے سربراہ متعدد گولیاں لگنے کے باعث شدید زخمی حالت میں ان کے وارڈ میں موجود تھے۔ وہ تمام افراد اپنے رہنما کو وہاں سے لے جانے آئے تھے۔

پروفیسر نے بتایا کہ ”وہ خطرے سے باہر تھے لیکن انہیں ڈسچارج نہیں کیا جاسکتا تھا۔”

پروفیسر مزید بتاتے ہیں کہ ”میرے ذہن میں سب سے پہلے مریض کے زخموں کے ٹانکے کھولنے کا خیال آیا۔ پھر میں نے آپریشن تھیٹر میں ان کے دو بیٹوں بلوایا جہاں انہوں نے اپنے والد کو ‘سنگین’ حالت میں دیکھا۔ میں نے کہا کہ میں ان کے والد کو بچانے کے لیے ایک پرخطر ‘آپریشن’ کرنے جارہا ہوں اس لیے مشتعل افراد کو کہیں کہ اپنے ہتھیار نیچے رکھ کر ان کے والد کی صحتیابی کے لیے دعا کریں۔”

جس کے دو گھنٹوں کے بعد مشتعل افراد منتشر ہوگئے تھے

ڈاکٹرز پر جب پستول تانی جاتی ہے یا پھر مشتعل افراد ڈاکٹر کو گھیر کر دھمکاتے ہیں تو ”اعصاب کو قابو میں رکھنا” اور ”دل کی دھڑکن کو معمول پر رکھنا” بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پر اگر پرسکون رہا جائے اور عقل سے کام لیا جائے تو حساس صورتحال سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اگر مریض کے ورثاء اور ڈاکٹر کے درمیان مؤثر رابطہ موجود ہو، تو کئی دفعہ تشدد اور اشتعال سے بچا جا سکتا ہے۔

مریض سے ہمدردی، اس کے ساتھ وقت گزارنا اور اس مرحلے میں مریض کی اپنی شمولیت مؤثر علاج اور صحتیابی کے لیے کافی اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔

ایمانداری کے ساتھ واضح طور پر بیماری کی تمام پیچیدگیاں سمجھا کر، بیماری کے سنگین نتائج ‘یہاں تک ممکنہ موت’ سے بھی آگاہ کر کے اور ڈاکٹر کی مریض اور اس کے ورثاء کے ساتھ ہوئی تمام بات چیت کو دستاویزی شکل دے کر مریض اور ان کے ورثاء کی ممکنہ غیرحقیقی توقعات کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔

مگر ایسا ایمرجنسی کی حالت میں کرنا شاید مشکل ہو، جہاں کم وقت میں جلد سے جلد فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ وہاں اکثر مریض کے ورثاء سے مشورے اور خطرات کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ہوتا۔ نتیجتاً شعبہء ایمرجنسی میں موجود جونیئر ڈاکٹرز اور نرسوں کو اشتعال انگیزی کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نو سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی شعبوں میں اشتعال کا نشانہ بننے والے جونیئر ڈاکٹرز 

سے انٹرویوز کیے گئے جن میں سے تقریباً 76.9 فیصد ڈاکٹرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس تعداد میں سے 65 فیصد زبانی اور 11.9 فیصد جسمانی تشدد کا شکار ہوئے تھے۔

خواتین ڈاکٹرز کے مقابلے میں مرد ڈاکٹرز پر تشدد کا خطرہ زیادہ دیکھا گیا اور زیادہ تر ڈاکٹرز نے تسلیم کیا کہ کسی بھی طرح کے تشدد سے ان کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے۔

لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں شعبہء طب سے وابستہ

دورانِ تحقیق 74 فیصد ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ گذشتہ سال کے دوران تشدد کا نشانہ بنے جن میں اکثریت (76.8 فیصد) کے ساتھ ایسے کیسز ایمرجنسی شعبوں میں رونما ہوئے تھے۔

تشدد کرنے والے زیادہ تر افراد (71 فیصد) مریضوں کے ورثاء تھے۔

دونوں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ تیمارداروں کا ”رش”، لمبا انتظار اور ڈاکٹر سے محدود رابطے کی وجہ سے انتشار اور بد نظمی پیدا ہوتی ہے، جو بعد میں سنگین تشدد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

لاہور میں ہونے والی تحقیق میں انٹرویو دینے والے دو تہائی سے زائد ڈاکٹرز نے تشدد کی شکایات درج کروائی تھیں، جبکہ زیادہ تر نے صرف اپنے ساتھیوں کو اس بات سے آگاہ کیا تھا۔ یہ شک کہ کوئی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا (73 فیصد)، ایک اہم وجہ تھی جس کی بناء پر تشدد کی اطلاع ہسپتال انتظامیہ کو نہیں دی گئی تھی۔

کچھ ڈاکٹرز (38.7 فیصد) کا خیال تھا کہ یہ اس ملازمت کا حصہ ہے۔

آئی سی آر سی کی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر تشدد کے متاثر ملازم اس بارے میں اطلاع دینا غیر ضروری سمجھتے ہیں اور خائف ہوتے ہیں کہیں ان کے منفی نتائج نہ مرتب ہوں۔

صحت مراکز کے ملازموں کے خلاف تشدد کا باعث بننے والے رویوں، ادارتی اور سیاسی و سماجی عوامل کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس مقدس پیشے سے وابستہ لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close