جناح کا پاکستان کہاں ہے؟
ہمارے نوجوان اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیشہ اس بات پر حیران رہیں گی کہ 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے۔
اس کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں، مگر میرے مطابق ہم یہ دن اس لیے مناتے ہیں کیونکہ اس دن پاکستان کا تصور باقاعدہ طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ایسے ملک کے حصول کی جدوجہد کا اعلان کیا گیا تھا جو برِصغیر کے مسلمانوں کا گھر ہوگا، اور ہمیشہ قائم رہے گا۔
تصورِ پاکستان کا مقصد ایک ہندوستان دشمن ریاست کا قیام نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں برِصغیر کے مسلمان سیاسی اور اقتصادی آزادی کا مزہ لے سکیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر بلا خوف و خطر عمل کر سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے وہ پاکستان حاصل کیا ہے جس کی جانب قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے مارچ 1940 میں سفر شروع کیا تھا؟ 23 مارچ 1940 کو ‘پاکستان ایکسپریس’ جب لاہور سے چلی، تو اس کا راستہ طویل اور کئی مشکلات سے بھرپور تھا۔
انگریز اور انڈین نیشنل کانگریس پارٹی ہر قیمت پر پاکستان کا قیام روکنا چاہتے تھے، اور اس دوران قائدِ اعظم نے نفرت اور دھوکے پر مبنی ہر مہم کا عقلیت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹھوس منطقی دلائل اور عزم و ہمت سے مقابلہ کیا۔
کیبنٹ مشن پلان 1946، جس کا مقصد پاکستان کے مطالبے سے دستبردار کروانا تھا، اس لیے نہیں کیونکہ مہاتما گاندھی نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو راضی کیا تھا کہ وہ جناح کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیرِ اعظم بنائیں، اور نہ ہی اس لیے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے تجویز دی تھی کہ کیبنٹ مشن پلان جناح کو پاکستان پاکستان کے بوجھ کے بغیر دے دے گا، بلکہ اس لیے کہ نہرو نے اپنا منصوبہ پیش کیا تھا کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کی ہی حکومت قائم ہوگی، کے تحت سر اسٹیفورڈ کرپس کی تجاویز پر غور کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے بعد جناح نے منطقی دلائل کے ذریعے یہ واضح کیا کہ اب صرف پاکستان ہی واحد راستہ ہے۔ یہ ساری باتیں تاریخ کا حصہ ہیں
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد جب قائدِ اعظم اپنے قائم کردہ ملک میں بمشکل ایک سال گزارنے کے بعد 11 ستمبر 1948 کو راہیء ملکِ عدم ہوئے، تو کس طرح ہم راستے سے ہٹ گئے اور بانیء پاکستان کے تصورات مسخ ہوگئے۔
ہاں ہم نے کچھ حد تک سیاسی آزادی حاصل کی ہے، مگر معاشی آزادی کی اب بھی بہت ضرورت ہے۔ جہاں تک مذہبی عقائد اور عبادت کی آزادی کی بات ہے، تو یہ بات سب کے سامنے ہے کہ پاکستان میں مسلمان اب بھی پولیس اور رینجرز کی مسلح حفاظت کے زیرِ سایہ نمازیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر مذہبی انتہاپسندی، انتہاپسند خیالات اور بیانات اس مضمون کا مقصد نہیں ہیں، اور ان پر کسی اور دن کسی اور مضمون میں بات کریں گے۔
قائدِ اعظم کے نظریات، تصورات، خواہشات، اصول اور پاکستان کے لیے ان کا وژن ان کی تقاریر اور بیانات میں جابجا ملتا ہے۔ یہ چیزیں میری شریف المجاہد کے ساتھ تحریر کی گئی کتابوں "دی جناح اینتھولوجی” اور "کوٹس فرام دی قائد” میں مل سکتی ہیں۔ ان کتابوں کو قائدِ اعظم اور پاکستان پر بہترین حوالہ جاتی کتب تصور کیا جاتا ہے مگر ہر آنے والے حکومت نے انہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر نصاب کا حصہ بنانے سے گریز کیا ہے۔ اس کی وجوہات نامعلوم ہیں مگر ادھورے وعدے بڑی تعداد میں ہیں۔
اردشیر کاؤسجی، مینو بھنڈارا اور ڈاکٹر حیء سعید نے اس کے لیے بے انتہا جدوجہد کی، مگر اپنے مقاصد کو پورا ہوتے دیکھے بغیر ہی اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔
یومِ پاکستان پر واپس آتے ہیں، اور یہ سوال کہ کیا ہم نے وہ حاصل کیا جس کے لیے ہم نے جدوجہد کی تھی۔ کیا 1947 کے بعد کا پاکستان یا آج کا پاکستان واقعی جناح کا پاکستان ہے؟
مجھے نہیں لگتا کہ اس سوال کا جواب کوئی بھی ہاں میں دے گا۔ اس موضوع پر سالہاسال بحث ہوئی ہے۔ قراردادِ پاکستان جسے انتہائی جوش و جذبے سے منظور کیا گیا تھا، وہ اس طرح تھی: "اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ عمل نہیں ہوگا اور مسلمانوں کو قابلِ قبول نہیں ہوگا جب تک کہ وہ مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہو: یہ کہ جغرافیائی طور پر باہم ملے ہوئے علاقوں کی اس طرح جداگانہ حد بندی کی جائے، اور ضرورت پڑنے پر علاقائی حدود میں ترمیم کی جائے، کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، مثلاً شمال مغرب اور مشرقی ہندوستان، انہیں باہم ملا کر آزاد ریاستوں کی حیثیت دے دی جائے۔ اور یہ کہ آئین میں ان علاقوں اور خطوں میں موجود اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان سے باہم مشورے کے بعد مناسب، مؤثر اور لازمی اقدامات کیے جائیں۔”
یہ قرارداد اور جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ طور پر پڑھائی جانی چاہیے تھی مگر ہر حکومت اس میں ناکام رہی ہے۔
‘پاکستان ایکسپریس’ بالآخر اپنی منزل پر پہنچی اور برِصغیر کے مسلمان خود کو ہندوستان میں موجود ہندو قوم سے الگ قوم سمجھنے لگے۔
مہاتما گاندھی کو قائدِ اعظم کا جواب بالکل مناسب اور زبردست تھا، مگر اس کا مقصد نفرتیں بڑھانا نہیں تھا۔ قائدِ اعظم نے کہا: "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے نزدیک قومیت کا جو بھی معیار ہو، مسلمان اور ہندو اس معیار کے اعتبار سے دو مختلف اقوام ہیں۔ ہم 10 کروڑ لوگوں کی قوم ہیں، اس سے بھی زیادہ یہ کہ ہماری ایک مختلف ثقافت، تہذیب، زبان، ادب، آرٹ، طرزِ تعمیر، نام، اقدار، قوانین، اخلاقی ضوابط، رواج، کلینڈر، تاریخ اور روایات، رویے اور عزائم ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں مختلف ہیں۔ ہر عالمی قانون کے مطابق ہم ایک الگ قوم ہیں۔”
جناح نے کبھی بھی مسلمانوں کے ہندوستان کے ہندوؤں کے ساتھ امن اور باہمی احترام کے ساتھ رہنے کی امید اور خواہش نہیں چھوڑی، اور ہندو مسلم اتحاد کی خواہش پر عمل پیرا رہے، جس کا سفیر انہیں قرار دیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے قیام کے بعد وہ پاکستان میں اقلیتوں کے محافظ بننا چاہتے ہیں، اور یہ کردار ان کے جیسے بلند پایہ سیاستدان کو بالکل زیب دیتا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ "مجھے اخلاص کے ساتھ امید ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات دوستانہ اور گرمجوشی پر مبنی ہوں گے۔ ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک دوسرے اور دنیا کے لیے بہت کام آ سکتے ہیں۔”
"سب سے پہلے تو دونوں ریاستوں کو داخلی امن و سلامتی کو بحال کرنا ہوگا اور قانون کی بالادستی قائم کرنی ہوگی – یہ بنیادی اہمیت کی بات ہے۔ میں نے یہ بار بار کہا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم دونوں ریاستوں کے درمیان باہم معاہدے کے تحت ہوئی ہے، اور ہمیں اب ماضی کو بھلا کر یہ عہد کرنا ہوگا کہ بھلے ہی جو کچھ بھی ہوا ہے، اس کے باوجود ہمیں ایک دوسرے کا دوست بن کر رہنا ہے۔ بحیثیتِ پڑوسی ہمیں ایک دوسرے سے بہت چیزوں کی ضرورت ہے، اور ہم ایک دوسری کی کئی مختلف طرح، مثلاً اخلاقی، مادی اور سیاسی طور پر مدد کر سکتے ہیں، اور اس طرح دونوں ریاستوں کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، یہ نہایت ضروری ہے کہ دونوں ریاستوں میں امن بحال ہو اور قانون کی بالادستی قائم ہو۔”
افسوس کی بات ہے کہ جس پاکستان کا تصور قائدِ اعظم نے اپنے اصولوں اور اپنے وژن کی تحت دیا تھا، وہ پاکستان حاصل نہیں کیا جا سکا، جیسا کہ حال ہی میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے لندن میں اپنی تقریر میں کہا کہ قائدِ اعظم کے پاکستان کا قیام معاشرے میں سے تعصب، عدم برداشت اور انتہاپسندی کا خاتمہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جب وزیرِ اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ آج کا پاکستان "جناح کا پاکستان” نہیں ہے تو ان سے اتفاق کیے بغیر رہنا ممکن نہیں ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: "ہم علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کے تصور کے مطابق پاکستان اس لیے نہیں تعمیر کر سکے کیونکہ بدانتظامی اور بدعنوانی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔”
ہمارے صفِ اول کے سیاستدان میٹنگوں کی صدارت کرتے ہوئے، خطاب کرتے ہوئے، یا بیرونِ ملک سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے قائدِ اعظم کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں کھنچواتے ہوئے مطمئن نظر آتے ہیں۔
مگر قائدِ اعظم کے جیسا ایک اور لیڈر پیدا ہونے اور "جناح کے پاکستان” کا خواب پورا ہونے کی امید ہمارے دلوں میں اب بھی زندہ ہے۔