کرتی ہے کیا تقاضا محَبّت حضورؐ کی
اس باب میں دو آرا ہو نہیں سکتیں کہ خالقِ ارض و سما کی توصیف و ثنا کے بعد سب سے ارفع و اعلیٰ کام حضور سرور کونینؐ کی مدح و توصیف ہے۔ اور اس کارِخیر میں تقدس و تحرّم اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا، جب تک مدح ممدوحِ رب العالمین ﷺ کے ساتھ عقیدت و محبت اور ارادت و مودّت لامحدود نہ ہوجائے۔
بلاشبہ حبِ رسولؐ ہی ایک صاحبِ ایمان کا وہ گراں مایہ اور لامثال و عدیم النظیر اثاثہ ہے، جو اس کے لیے دین و دنیا میں باعثِ فخر و مباہات بھی ہے اور ہنگامۂ محشر میں وجۂ شفاعت و نجات بھی۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ گواہ ہے کہ ان فدایانِ توحید و رسالتؐ نے اس انمول و مقدس نعمت غیر مترقبہ کو اپنے سینوں میں سجا کر فارس و روم کی جلال آفرین سلطنت کو روندتے ہوئے ان کے تاج وروں کے تخت و تاج کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیر دیں۔
پرچمِ محبتِ رسولؐ کی اڑان سے طائرانِ بامِ کفر ایسے لرزہ براندام ہوئے کہ موئے آتش دیدہ کی طرح صفحۂ دہر سے مٹ گئے اور پھر اہل دنیا نے دیکھا کہ فداکاران رسالتؐ نے دیکھتے ہی دیکھتے اس کائنات رنگ و بو کو مسخر کرکے اپنے خاک نشین کملی والے ﷺ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا۔ چشمِ فلک ایک طویل عرصے تک عشقِ رسولؐ کے ان حیات بخش اور ایمان افروز مناظر کا مشاہدہ کرتی رہی اور یہ خوب صورت اور پاکیزہ جذبہ مسلمانوں کے سینوں میں تلاطم بپا کرتا رہا۔
اک عشق مصطفیٰؐ ہے، اگر ہوسکے نصیب
ورنہ دھرا ہی کیا ہے، جہانِ خراب میں
ایک مسلمان کو اگر بالیدگی ٔذہن، دل کو دولتِ طمانیت، آنکھوں کو بصارت، خون کو حرارت، جسم کو توانائی، صلاحیتوں کو ارتقا، جذبوں کو ارتفاع، لبوں کو ثروتِ مسکراہٹ، ہاتھوں کو طاقتِ لمس اور خیالات کو بلندی نصیب ہوسکتی ہے تو وہ یہی جذبہ عشق رسولؐ ہے۔
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس رفیع الشان اور بے عدیل جذبے اور محبت کے تقاضے کیا ہیں۔ اگر ایک مسلمان یہ کہے کہ میں اس عدیمُ المثال جذبے سے سرشار ہوں مگر اس کے تقاضوں کے ضوابط کا اسیر بن کر نہیں رہ سکتا، تو لامحالہ اس سے فرامینِ خدا و مصطفیٰؐ سے انحراف کا پہلو نکلتا ہے، جو آقائے گیتی پناہؐ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے۔ آج اگر چشمِ حقیقت سے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانانِ عالم کی پستی و زوال کا سب سے بڑا سبب آقاؐ کے فرامین سے عملی پہلوتہی کرنا ہے۔ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ کیا محض رنگینی حسنُ بیان سے ہی ہمارے سوزِ دروں کی آنچ فلاح دنیا اور نجات اخروی کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔ ؟
وہ خونِ جگر کس کام کا جو زینتِ چمن نہ بڑھا سکتا ہو، وہ حیاتِ مستعار کس کام کی جو عصیانِ عالم کا آمیختہ بنتی جا رہی ہو، وہ لیلیٔ معنی کس کام کی جو لفظوں کی تزئین کا سامان نہ کرسکے۔ جس ذات اقدس ﷺ کی تشریف آوری سے کفر و ضلالت کے اندھیرے کافور ہوئے، جن کے دم قدم سے دانش وران گیتی کو صبحِ جہاں تابیٔ افکار کی دولت مرحمت ہوئی، جن کے روئے تاباں سے درخشانیٔ سحر کو تقدس کی نعمت ارزاں ہوئی، کیا ہم ان کی سیرت اقدس ﷺ سے راہِ گریز اختیار کرکے کسی کام یابی کا تصور کرسکتے ہیں۔۔۔ ؟
سوائے اس کے ہمارے دامن خطا میں اور کیا ہے
جاتی ہے عرش پر یہ تمہارےؐ ہی فیض سے
میری دعائے دل کا سہارا تمؐ ہی تو ہو
آپؐ کی محبت کے تقاضوں میں بنیادی مطالبہ خود احتسابی ہے، حصورؐ کا ہر نام لیوا روزانہ اپنی ذات کا احتساب کرے کہ اس کی زندگی کا ہر گزرنے والا لمحہ کس طرح اور کیسا گزرا، وطن عزیز میں دہشت گردی کا عفریت، قتل و غارت گری کا لامتناہی سلسلہ، رشوت ستانی، اقربا پروری، معصوم خواتین کی بے باکانہ عصمت دری، اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے حصول زر کی بے محابا دوڑ، حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی بے دریغ پامالی، فرائض سے غفلت، حقوق کی طلب ، اہل ثروت کی بے جا خوشامد و توقیر، ناداروں سے بے اعتنائی اور نفرت، دلوں سے مہر و محبت کا اٹھ جانا، مادہ پرستی کی غایت کا رگ و پے میں سما جانا، یہ عریانی، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر الحاد و بے دینی کا امڈتا ہوا طوفان، رقص و سرود کو روح کی تسکین کا سامان قرار دیا جانا، مغرب زدہ طبقے کا شعائر اسلام کا سرعام تمسخر اڑانا، عالمِ کفر کے پرستاروں کے سایۂ نعلین کو ظل ہما سمجھ لینا، یہ فضائے وطن میں بے گناہوں کے اچھلتے ہوئے گوشت اور وحشت آفرین شعلوں کو دامنِ جبر سے ہوا دینا، یہ سب سیرت محمد عربی ﷺ پر عمل نہ کرنے کا شاخسانہ ہی تو ہے۔
اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر اوج دارین نصیب ہوجائے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم سوز و ساز رومیؒ اور پیچ و تاب رازیؒ کی لطافت سے آشنا ہوجائیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ نعائمِ فطرت کے خزائن ہماری آغوش میں چلے آئیں، اگر ہم اغیار کی دریوزہ گری کی لعنت سے نجات چاہتے ہیں، اگر ہم اپنی غیرت و حمیت اور خودداری کے تحفظ کے لیے مخلص ہیں، اگر ہم اپنے گھروں میں مادیت کی بجائے انسانیت اور روحانیت کے چراغ روشن کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم وطن عزیز کے بچوں کو قرآن و صاحب قرآن ﷺ کے علومرتبت سے آشنا کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم خارزارِ حیات کو گلستانِ محبت کی شمیم انگیزیوں میں بدلنا چاہتے ہیں، تو آئیں خاکِ مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا عزم صمیم کرلیں۔
آئیں حریر و پَرنیاں کے پردوں کو پھاڑتے ہوئے خاک نشین ناداروں سے الفت کا سبق سیکھیں۔ آئیں قاتلوں کو مسیحائی کے گُر سکھانے کے لیے مکتب پیرویٔ رسولؐؐ سے آشنائی کا تہیہ کرلیں، آئیں سیرت رسولؐؐ کی روشنی میں اس معاشرے کو جنت کا گہوارا بنانے کا ارادہ کرلیں، جس میں غیرتیں دم توڑ رہی ہیں، رگ و پے سے بے حیائیاں بول رہی ہیں۔
مخدّرات کی عفت و عصمت کو بے حیا نظروں کا تماشا بنایا جاتا ہے۔ آئیں آمنہؓ کے اس در یتیم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرلیں، جس نے رگ ہائے ذرات میں نظام شمسی کا لہو دوڑاتے ہوئے عرب کے وحشیوں کو سلاطینِ وقت کے گریبانوں سے کھیلنا سکھایا۔ آتش نمرود کے بپھرے ہوئے شعلے اب بھی ہمارے باقی ماندہ جذبۂ توحید کو (خاکم بہ دہن) جلانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ اب بھی فراعنۂ مغرب ہم فاقہ کشوں کے اجسام سے روح محمدؐ کشید کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ مگر کچھ وقت باقی ہے۔ ہم شکوہ خسروی اور رفعت دارائی کو آج بھی پاؤں تلے روند سکتے ہیں، مگر
کرتی ہے یہ تقاضا محبت حضورؐ کی
دل میں بسالیں سیرت و کردار مصطفیٰؐ