بلاگ

صحرائی جنت ’ تھر‘

پاکستان کو چھوڑ کر سندھ کے ایک ایسے خطے کی طرف عوام الناس کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کے بارے میں لوگوں نے ایک غلط رائے قائم کر رکھی ہو۔ اسکی سب سے بڑی وجہ گوگلی صحافی (یعنی گوگل سے تلاش کرنے والا قلم کار) ہے۔ گوگل سے غیر تصدیق شدہ مواد حاصل کرنے والا یہ صحافی جو اور جتنا سامنے آتا ہے کی بنیاد پر تھر کے معصوم عوام سے متعلق ایسا دانستہ مذاق لکھتا رہا کہ جسکا نقصان خود تھر کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ اپنے صحافتی دور میں ہر سال تھر میں پیاس اور بھوک سے سینکڑوں ہلاکتوں کی خبریں اور تصاویر خبروں اور کالموں کی زینت بنتے اس آس پر دیکھتا رہا کہ زندگی اور موت کے اس بھیانک کھیل کا مشاہدہ اپنی جاگتی آنکھوں سے کروں گا، اور یہ جاننے کی بھی کوشش کروں گا کہ اتنی خشک سالی اور قحط کے باوجود تھر کےعوام وہ جگہ چھوڑنے کو آخر راضی کیوں نہیں ہوتے اور ایسی کیا چیز ہے وہاں جو انہیں روکے رکھتی ہے۔

اسی تلاش میں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے توسط سے 3 روزہ دورے پر تھر جانے کا موقع میسر آیا۔ یہ کراچی سے 400 سے زائد کلو میٹر دور سندھ کے جنوب مشرق میں 21 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط دنیا کا تیسرا بڑا صحرا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تھر ہزاروں سال پہلے سمندر کا حصہ تھا، تغیرات کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے سمندر، پانی کی کمی اور بارش نہ ہونے کے سبب چٹیل علاقہ کا روپ دھارتا یہ ایک عظیم صحرا کی شکل اختیار کرگیا، اور اب یہاں کسی سمندر کے وجود کی بات ایک خواب سا دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان کا یہ سب سے بڑا صحرا اپنے اندر قدرت کے کئی خوب صورت رنگ سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں کہیں اڑتی ریت نظر آتی ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت، کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں پہاڑ (جو قیمتی پتھر گرینائیٹ کا ہے) اور کہیں تاریخی مقامات (مندر و مساجد) ہیں۔ پھر کہیں نمک کی جھیل، غرض یہ کہ قدرت کے دلکش مناظر کا شاہکار صحرا طبعی خصوصیات سے پوری طرح مزین ہے۔ یہ سندھ کا وہ خطہ ہے جو نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی اس کی اہمیت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ساڑھے 3 سو کلو میٹر تک بھارت سے جڑا یہ صحرا بہت حساس گردانا جاتا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت نے صحرائے تھر کے 65 دیہات پرقبضہ جما لیا تھا جبکہ 1971ء میں تھر پارکر کے سینکڑوں گاؤں بھارت کے قبضہ میں چلے گئے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تھر پارکر دراصل دو نام یعنی تھر اور پار کا مرکب ہے۔ جسکا مطلب پہاڑی علاقہ ہے، یہ ایک ضلع ہے جسے 4 تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں مٹھی، ڈیپلو، ننگر پارکر اور چھاچھرو شامل ہے۔ صحرائے تھر ماروی کا دیس، عثمان ڈیپلائی کی جائے پیدائش، مسکین جہان خان کھوسو کا مدفن ہی نہیں، بلکہ 16 لاکھ سے زائد افراد کا مسکن بھی ہے۔ یہاں ہندو اکثریت جبکہ مسلم اقلیت میں ہیں، یہاں کے عوام کی گزر بسر زیادہ تر مال مویشی اور گھریلو صنعت پر ہے جبکہ لوگ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں، جوکہ مشکل سے ہی میسر آتی ہے۔ تھر کا موسم شدید ہوتا ہے، گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ہوتا ہے، جبکہ جون جولائی میں یہ صحرا آگ اُگلتا ہے۔تھر میں چوماسہ کافی مشہور ہے جو چار مہینے رہتا ہے، صحرا کی خنک ہوائیں موسم کو خوشگوار بنا دیتی ہیں اور ان مہینوں میں پڑنے والی برسات سے شادابی اپنے سحرمیں جکڑ لیتی ہے۔ برسات سے پہلے چلنے والی ہوائیں اس قدر تیز ہوتی ہے کہ تناور درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتی ہے۔ تھر میں ریت اور مٹی کے بڑے چھوٹے ٹیلے ہیں، جنہیں مقامی لوگ ’’بھٹ یالسک‘‘ کہتے ہیں۔اس عظیم صحرا میں پائے جانے والے منفرد نوعیت کے بے شمار درخت عام طور پر دوسرے علاقوں میں نہیں پائے جاتے۔ یہاں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں کئی موذی امراض میں کام آتی ہے، جبکہ کئی جنگلی پودے مال مویشیوں کو کھلانے کے ساتھ ساتھ لوگ سبزی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ بارشوں کے بعد تھرمیں بعض جگہوں میں چھانہہ (تربوز) خود بخود اُگ پڑتے ہیں، جبکہ کڑوے گودے کے ساتھ خربوزے کی شکل والا پھل کئی بیماریوں میں مفید تصور کیا جاتا ہے۔ تھر میں آبادیاں طویل فاصلوں پر قائم ہیں۔ ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ تک کا فاصلہ کئی میل کی مسافت پر ہے۔ زیادہ تر گاؤں بھٹوں کے دامن میں، کہیں صحرائی درختوں کے جھرمٹ میں یا پھر کہیں ریگستانوں میں پائے جاتے ہیںتھر کے صحرا میں رہنے کے لئے بنائی جانے والی جھونپڑی کو ’چنرے‘ کہا جاتا ہے۔ یہ 10 سے 12 فٹ کے دائرے میں گندم کے بھوسے میں ٹاٹ یا روئی ملے مٹی کے گارے سے گول دیوار نما شکل میں تیار کیا جاتا ہے، گول دیوار کے اوپر لکڑیوں سے فریم بنایا جاتا ہے، اور پھر فریم کے اوپر صحرائی گھاس کی چھتری نما چھت بنا کر آہنی تار یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ ہندو خاندان کا چنرا انتہائی آخری سرے پر ایک پینسل کی نوک کی طرح بنایا جاتا ہے، جبکہ مسلمان چونرے کی چھت گنبد کی طرح گول ہوتی ہے۔ اس طرح چونرے میں رہنے والوں کے مذہب کا با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے

ہمیں بھی 8 سے 12 اور 400 چونروں والا گاؤں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ چونرے اتنے خوب صورت دکھائی دے رہے تھے کہ ہم سمیت ہر آنے جانے والا ان کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی تصاویر بنواتے ہوئے خوشی محسوس کررہا تھا۔ تھری عورتیں امور خانہ داری میں طاق ہونے کے ساتھ انتہائی محنتی اور جفاکش بھی ہوتی ہیں جو اپنے مردوں کے شانہ بشانہ مشقت کرتی نظر آتی ہیں۔ تھر میں دو شادیوں کا رواج نہیں ہے، یہاں خواتین کم عمری میں شادی اور صحت بخش خوراک میسر نہ ہونے کے باعث اپنی عمر سے بڑی، کمزور اور لاغر دکھتی ہیں۔

سبزیوں کی بات کی جائے تو یہاں کپاس، مرچ، گندم، جوار، تل، باجرہ اور اب پیاز، گاجر، ٹماٹر اور اسپغول کی کاشت کی جا رہی ہے۔ سبزیوں کی آبیاری کے لئے بہت سی جگہوں پر ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں، جبکہ ڈیپلو میں بغیر کھاد کے کاشت کی جارہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھوک و افلاس کا شہر کہلائے جانے والے تھر کے طول وعرض پر پھیلے صحرا کو چھان مارنے کے بعد بھی ہمیں غیر ملکی این جی اوز کی خود ساختہ پیدا کردہ پیاس، بھوک و افلاس کہیں نظر نہیں آئی۔ البتہ، وہاں کے رہائشیوں میں شعور اُجاگر کرکے انکا طرز زندگی بدلتے ہوئے احساس محرومی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بقول قرنی،

’’تھر میں کام کرنے والی تمام سماجی تنظیوں نے خدمت اور انسانیت کا ڈھونگ رچا کر تھری عوام کی مجبوریوں کو نیلام کیا ہے اور ان کے نام پرکروڑوں کما کر محض تجوریاں بھری گئی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر کے ایک ملین سیاح ہر سال اس فطری حسن کو دیکھنے کے لئے اس صحرا کا رخ کرتے ہیں۔ تھر کی اسی خوبصورتی کے پیش نظر اگر حکومت پاکستان اس علاقے کو سیاحت کے فروغ کے لئے ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات اُٹھائے تو اس سے نہ صرف حکومت کے زر مبادلہ میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تھری عوام کی خدمت کرنے کا موقع بھی دستیاب ہوگا، پس ضرورت اک نظر التفات کی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close