تجریدی رقص میں زندگی نامہ
یورپ میں رقص کے فن کی طویل تاریخ ہے۔زمانہ قدیم سے عہدحاضر تک مختلف اقسام کے رقص تخلیق کیے جاتے رہے۔روایتی انداز کے رقص کو لوک ورثے کی حیثیت حاصل رہی،جبکہ جدید رقص دورحاضرکانمونہ ثابت ہوا۔فنون لطیفہ کی ترقی میں جہاں دیگرشعبوں نے جدید دورکی تبدیلیوں کواپنے اندرسمویا،وہیں رقص نے بھی اپنے لیے کئی نئی جہتیں تلاش کیں۔ایسی ہی ایک جہت ’’تجریدی رقص‘‘کی ہے،جس کاموضوع کائنات میں موجود ہرشے کے متحرک ہونے سے متعلق ہے۔
فطرت سے لے کر روزمرہ کی زندگی میں ہونے والی ہرسرگرمی کواس رقص کے ذریعے دکھایاجاتاہے۔اس اندازِ رقص میں روشنیوں اورچہرے کے تاثرات کے ساتھ ساتھ بدن کی چستی سے مدد لی جاتی ہے۔یہ شاید وہی رقص ہے،جس کو معروف پاکستانی شاعر جوش ملیح آبادی نے ’’اعضاکی شاعری ’’کہاتھا۔اس ’’تجریدی رقص‘‘کوپاکستان میں پہلی بارجرمنی کے فنکاروں نے ،نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA)میں جاری تھیٹرفیسٹیول میں’’Chipping‘‘ کے عنوان سے پیش کیا،جواپنی نوعیت کی منفرد مگر تھوڑی عجب پیش کش تھی۔
کراچی میں جاری نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے تھیٹرفیسٹیول کا یہ پانچواں سال ہے۔اس میں جرمنی سے آئے ہوئے اس ثقافتی طائفے نے ’’تجریدی رقص‘‘پیش کیا۔یہ ایک کہانی نمارقص کی شکل میں پیش کیاگیا،جس کے پیچھے کوریو گرافر اورآرٹسٹک ڈائریکشن’’Anna Konjetzky‘‘کی تھی۔وہ جرمنی میں اس طرزرقص کے حوالے سے جاناپہچانا نام ہے۔
انہوں نے اس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2005میں اس فن کو اختیار کیا،رقص کی مختلف صورتیں تخلیق کیں،جن کو اسٹیج پر پیش کیاجاسکے۔اپنی پروڈکشن کمپنی بنائی ،جس کے تحت رقص کے ماہر فنکاروں کویکجاکیا،ان کو اپنی تخلیقات میں ڈھالااورپھر اپنی تخلیقات کو یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پیش کیا،تازہ ترین پیشکش پاکستان کے لیے ہے،جس کایہاں ابھی تذکرہ ہورہاہے
Anna Konjetzky‘‘کے خیال میں دنیاکی ہرچیز متحرک ہے،جس کاعملی اظہاران کے موجودہ کھیل’’Chipping‘‘کیاگیا۔اس کھیل کی واحد اداکارہ اوررقاص ’’Sahra Huby‘‘تھی،جس نے ایک گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل اس کھیل میں اپنی بھرپورتوانائی سے رقص کی زبانی اپنافن پیش کیا۔اس کھیل میں دکھایاگیاکہ کس طرح چیزیں حرکت میں ہوتی ہیں،مگر ہم انہیں محسوس نہیں کرسکتے یاوہ ہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔فطرت میں مناظربدلتے ،بنتے اورٹوٹتے ہیں۔کبھی مختصر اورکبھی وسیع ہوجاتے ہیں۔
ہمیں اپنے اردگردتبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے تبدیل ہوناچاہیے،تاکہ حالات اورتبدیلیوں کابیک وقت مقابلہ کرسکیں۔اس مقصد کوپانے کے لیے سخت ذہنی اورجسمانی مشقت کرنا پڑتی ہے۔معاشرے کی تیز رفتاری میں خودکوبدلنابھی ایک اہم سرگرمی ہے،جس میں ہمیں پیش پیش رہنا ہوتاہے۔یہ کھیل اسی خواہش کی تکمیل،توانائی کے اظہار،حالات سے مقابلے،تبدیلیوں سے مکالمے اوربدن دریدہ کیفیتوں کا عکس تھا،جس کو ماہر رقاصہ نے شاندار انداز سے پیش کیا،جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ،وہ کم ہے
اس کھیل کی خالق اورہدایت کارہ ’’Anna Konjetzky‘‘نے اس بلاگر سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا۔’’پاکستان میں مجھے اس کھیل کو پیش کرکے بہت خوشی ہوئی،یہاں کے لوگ بہت محبت کرنے والے اور باذوق ہیں۔‘‘
اس کھیل کی واحد اور مرکزی کردار ’’Sahra Huby‘‘نے بھی ہم سے اپنی خصوصی گفتگومیں اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہا۔’’میراتعلق بیلجئیم سے ہے،جب میں اس کھیل کے سلسلے میں پاکستان پہنچی،تووہاں دھماکے ہوئے،میرے سب دوست اورعزیز مجھ سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے،مگرمیں نے ان سے کہا،میں توخودکویہاں زیادہ محفوظ تصورکررہی ہوں،کیونکہ دھماکے تووہاں ہوئے ہیں،تو ایسی بات نہیں ہے،میں نے پاکستان کو حقیقت میں بالکل مختلف پایا،سب سے زیادہ حیرت مجھے یہاں کے تھیٹرشائقین پر ہے،جنہوں نے دوران کھیل انتہائی سنجیدگی کامظاہرہ کیا،ورنہ ایسا بہت کم دیکھنے میں آتاہے اورلوگ اتنی توجہ سے کھیل نہیں دیکھتے،جس طرح یہاں دیکھاگیا،یہ بہت اہم بات ہے۔اسی لیے میں یہاں اپنے فن کو پیش کرکے بہت خوشی محسوس کررہی ہوں۔‘‘
ناپاکے اس تھیٹرفیسٹیول کے پانچویں روز جرمنی سے آئے ہوئے اس ثقافتی طائفے نے یہ رقص نماکھیل پیش کیا،جس میں فطرت کی غمازی،حالات کی تبدیلی اوررویوں کی سنگینی کومنعکس کیاگیا۔اس کھیل کی ہدایت کارہ نے بتایاکہ ناپا کی فرمائش پر یہ کھیل یہاں پیش کیاگیا۔
تھیٹرکے عام شائقین کے لیے اس کھیل کوسمجھنا خاصا دشواررہاہوگا،ناپاکوچاہیے ایسے کھیل،جن کامرکزی خیال تجریدی ہو،یا جن کا تعلق پاکستانی ثقافت سے نہ ہو،ان کا آسان اردو اورانگریزی میں خلاصہ یاتشریح لکھ دیاکریں تاکہ شائقین اس کودیکھنے کے لیے پیشگی ذہنی طورپر تیار ہوسکیں۔اس قسم کے کھیلوں کو پاکستان میں پیش کرنے کے لیے ابھی بہت وقت درکارہے،تھیٹرشائقین کا شعوری ارتقاابھی اس سطح پر نہیں،جہاں ایسی چیز کو فوری طورپر قبول کرلیاجائے۔
اس کھیل میں رقاصہ کی کارکردگی اور ‘متحرک اسٹیج ‘ قابل تحسین تھی تاہم اس ایک گھنٹے کے کھیل میں استعمال ہونے والی پس پردہ موسیقی سماعت پر بوجھ ثابت ہوئی۔ایک ارتعاش نما موسیقی کے ذریعے اس تجریدی کھیل کو اندھیرے اجالے میں کھیلنے کی کوشش کی گئی ،وہ تو رقاصہ کی مہارت اوربھرپورفنی توانائی کام آگئی،ورنہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا یہ انتخاب تھیٹر کے شائقین کے لیے بہت بھاری پڑسکتاتھا۔
جرمنی سے آئی اس کھیل کے تمام اراکین،جرمنی کے ثقافتی مرکز گوئٹے انسٹی ٹیوٹ اورسفارت خانہ جرمنی کاشکریہ،جنہوں نے اپنے فنکاروں کو پاکستان بھیجا،جس سے یہ تصورکسی حد تک غلط ثابت ہواکہ پاکستان خطرناک ملک ہے اور شاید یہاں کے لوگوں کو فن وثقافت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔2016کوناپامیں جاری یہ پانچواں تھیٹر فیسٹیول 20مارچ سے شروع ہواتھا،جو 3اپریل تک جاری رہے گا