ان پڑھوں کی سسکتی بیویاں
دوسری شادی کو ناممکن بنا کر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو علاقائی ثقافت سے متصادم کیا جا رہا ہے جبکہ دین کے مقابلے میں علاقائی روایات اور ثقافت کی اہمیت نہیں رہتی۔ میں بھی پاکستانی روایات اور قوانین کی شکار ایک مظلوم خاتون ہوں۔
میں لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں بطور لیکچرار اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہوں۔ کم عمری میں میرا نکاح وٹہ سٹہ کے نتیجے میں اپنے ماموں زاد بھائی کر دیا گیا تھا۔ پھر بلوغت میں پہنچتے ہی میری رخصتی کر دی گئی۔ میرے شوہر نے پانچویں کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ ہمارا تعلق جھنگ کے مضافاتی علاقہ سے ہے۔ شوہر نے کھیتی باڑی کے کام کو ترجیح دی جبکہ میں لاہور ہوسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرتی رہی ۔ شادی کے بعد بھی میں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ شادی کے کچھ عرصہ کے بعد میرے میاں بھی لاہور آگئے اور ہم کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ لگن اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تعلیم مکمل ہونے کے فوراً بعد مجھے لیکچرر شپ کی آفر ہوئی جو میںنے قبول کر لی۔ کالج کے اوقات کے بعد میں نے گھر میں پہلے ٹیوشن کا سلسلہ شروع کیا پھر اکیڈمی کا آغاز کیا۔ دن رات محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالی آسودگی حاصل ہوگئی۔ والد صاحب کا ایک چھوٹا سا پلاٹ جنرل ہسپتال کے نزدیک تھا وہ انہوں نے مجھے دیدیا۔ میں نے اس پلاٹ پر گھر اور دوکانیں تعمیر کروالیں۔دکانوں کے اوپر اکیڈمی قائم کر لی۔ چنانچہ مزید آمدنی شروع ہوگئی۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا خاوند ایک صحت مند انسان ہے مگر انتہائی درجے کا ہٹ دھرم انسان ہے۔ کافی عرصہ سے کوئی کام نہیں کر رہا۔ زرعی زمینیں بھائیوں کو دے دی ہیں۔ سارا دن دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتا رہتا ہے۔ گھر کا سودا سلف تک نہیں لاتا۔ اگرکسی بات پر احتجاج کروں تو گالی گلوچ شروع کر دیتا ہے۔ الزامات اور بہتان لگانے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ انتہائی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کرتا ہے جبکہ تعلیم نے میرے اندر ایک خاص قسم کی شائستگی اور رکھ رکھاﺅ پیدا کر دیا ہے۔ پھر کالج میں میری ساتھی اساتذہ بھی انتہائی مہذب اور شائستہ اطوار کی حامل ہیں۔ ایک طرف اخلاقی اقدار کی انتہا دوسری طرف صرف جہالت، کڑھ کڑھ کر میرا جسم مختلف قسم کی بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں طلاق اور دوسری شادی کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے خاوند نے میری روح پر کچوکے لگا لگا کر اسے چھلنی کر دیا ہے۔ کئی دفعہ سوچا کہ خلع لے لوں مگر اس کی بہن میرے بھائی کی بیوی ہے۔ ان کے چار بچے ہیں اگر میں نے خلع لیا تو وہ بھی خلع لے لے گی۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں کنواری لڑکیوں کے مناسب رشتے نہیں ملتے۔ طلاق یافتہ خاتون سے کون شادی کرے گا؟ طلاق اتنا بڑا جرم سمجھا جاتا ہے کہ مجھے نہ معاشرہ قبول کرے گا نہ میرا اپنا خاندان، بہتر زندگی گزارنے کے سارے راستے محدود مسدور ہیں اور اکیلی عورت کو اس معاشرے میں کوئی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مجھے دین کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کا موقعہ بھی ملا تھا۔ ہمارے ملک میں دوسری شادی اور طلاق کو جس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے۔ وہ اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اگر میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے تو انہیں علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ نکاح ثانی کا طریقہ آسان بنانا چاہئے۔ زبردستی کا نبھاہ دو مختلف ذہن رکھنے والوں کی زندگیاں بھی تباہ کر دیتا ہے۔ ان کی اولادوں کی بھی، کبھی کبھار احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بجائے ہندوﺅں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی خوشنودی زیادہ عزیز ہے۔ اب تو قوانین بھی ایسے بنائے جاتے ہیں کہ جس سے اسلام کو نقصان اور دوسرے نظریات کو تقویت ملے۔ اسی رویے نے انتہا پسندی کے جذبات کو فروغ دیا ہے۔ اسلام کے دشمن اس بات کا بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں چونکہ میں خود ایک دیہات کی رہنے والی ہوں۔ اس لئے میں جانتی ہوں کہ وہاں قرآنی اور دینی تعلیمات کیسے دی جاتی ہیں؟
میری ایک ساتھی لیکچرر کو کسی وجہ سے طلاق ہوگئی تھی۔ وہ خوبصورت ہے۔ اچھی نوکری کر رہی ہے۔ اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ انتہائی شائستہ اطوار کی خاتون ہے۔ مگر اسکا بھی ابھی تک نکاح ثانی نہیں ہو ا اس کی اصل وجہ مجھے اس نے خود بتائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مناسب رشتہ ہی نہیں ملتا۔ جو لوگ مناسب ہیں وہ کنواری لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں ان کی نظر میری تنخواہ اور آبائی جائیداد کے حصے کی طرف ہوتی ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ یہ رشتہ ہو بھی گیا تو چلے نہیں پائے گا۔ شوہر کسی بھی وقت چھوڑ جائے گا۔
زیادہ تر مرد شادی کے بغیر ہی تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کو مردوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ شاید شادی کے بغیر ہی تعلقات پر آمادہ ہو جائیں گی۔ معاشرے کا یہ مکروہ چہرہ میں بہت عرصہ سے خود یکھ رہی ہوں۔ ہمارا معاشرہ میں مطلقہ اور بیوہ خواتین کو صرف ”کٹی پتنگ“ یا”لوٹ کا مال“ سمجھتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میں زبردستی نبھاہ کر رہی ہوں۔میں علماءکرام اور بزرگان دین سے صرف ایک سوال پوچھتی ہوں کہ دین کی تشریح کس کی ذمہ داری ہے؟ اور اسلامی معاشرے کی اصلاح کس کی ذمہ داری ہے؟