جہاد نہیں، میں تو فلم دیکھنے نکلا تھا
لاہور کے گلشن اقبال پارک حملے کے پیچھے ایک نوجوان خود کش بمبار تھا۔
ان خود کش بمباروں کو کیا چیز ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے؟
اس سوال کا کبھی واضح جواب نہیں ملا، تاہم صحافی اوون بینٹ جونز سے بات کرتے ہوئے ایک شخص نے بتایا کہ پاکستان کے ایک جنگجو تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ دراصل وہ کس طرف جا رہا ہے۔
لاہور حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنطیم نے بعد ازاں خود کش بمبار کی ایک تصویر جاری کی تھی۔ تصویر میں وہ تقریبًا 21 سال کا نوجوان نظر آ رہا ہے۔
اس تصویر میں، جسے انٹرنیٹ پر کئی بار پوسٹ کیا جا چکا ہے، بمبار اپنے کندھوں پر ایک بھاری بندوق اٹھائے ہوئے ہے اور اس کا دایاں ہاتھ اس کے چہرے کے سامنے ہے جس میں وہ اپنی شہادت کی انگلی کو آگے کر کے جیسے کہہ رہا ہو ’سنو۔ ذرا میری بات سنو۔‘
اور یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوجوان دراصل سوچ کیا رہا تھا؟
میں چند ماہ قبل لاہور میں خالد محمود (فرضی نام) نامی ایک نوجوان سے ملا جنھوں نے ایک اسلامی جنگجو تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور ایک ایسے سفر کا آغاز کر چکے تھے جو نفرت، دھماکوں، اور افرا تفری پر ختم ہوتا ہے۔ وہ اتنا آگے نہیں گئے، لیکن سوال پھر وہی ہے کہ وہ کیوں سمجھتے تھے کہ پرتشدد جہاد ہی صحیح راستہ ہے؟
خالد محمود کے علاقے میں ایک سکول بھی تھا جہاں وہ کبھی نہیں گئے۔ اس کی بجائے وہ اپنے والد کے ساتھ فصل اگانے اور اسے پانی دینے کا کام کرتے تھے اور پھر دیگر نوجوانوں کی طرح ان پر بھی کچھ نیا کرنے کی دھن سوار ہوئی، اور 12 سال کی عمر میں وہ لاہور آ گئے اور ایک فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔
ایک دن، جب ان کی عمر تقریباً 15 سال ہو چکی تھی، خالد کو خیال آیا کہ انھیں فلم دیکھنی چاہیے۔ اس سے پہلے انھوں نے کوئی فلم نہیں دیکھی تھی، اس لیے انھوں نے سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ بھی سینیما جائیں۔
اور جب وہ سینما کی تلاش میں لاہور میں گھوم رہے تھے تو ایک جلوس نے ان کا راستہ روک لیا۔ یہ 11 ستمبر کے کچھ ماہ بعد کا زمانہ تھا اور لوگوں کے جذبات مشتعل تھے۔
خالد کے بقول یہ جلوس پاکستان کی سب سے طاقتور جہادی تنظیم جیش محمد نے منعقد کروایا تھا، جس میں ہر کوئی امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ جلوس میں اعلانات کیے جا رہے تھے کہ ’ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو افغانستان جا کر امریکہ کےخلاف لڑ سکیں۔‘
خالد نے اسی وقت اس تنظیم میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔
’میں نے سوچا کہ مجھے جانا چاہیے۔ اسی بہانے میں کوئی دوسرا ملک ہی دیکھ لوں گا
اور پھر کچھ ہی دنوں بعد خالد کو جنوبی افغانستان میں طالبان کے سب سے مضبوط گڑھ قندھار پہنچا دیا گیا۔
وہاں جاکر انھیں معلوم ہوا کہ وہ مذہب کے بارے میں کتنا کم جانتے ہیں۔
’میں نے پاکستان میں کبھی بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ مجھے نماز صحیح طریقے سے ادا کرنی ہی نہیں آتی تھی۔‘
وہاں ایک افغان پیشوا نے خالد کو نماز پڑھنی سکھائی۔ اس وقت تک کسی بھی قسم کے پرتشدد جہاد کی کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی، لیکن خالد کے بقول ’وہاں زندگی بہت مشکل تھی۔
’وہ تمام پشتون تھے اور مجھے ان کی زبان سمجھ نہیں آتی تھی۔ میں ایک دوسری ہی دنیا میں تھا۔ وہاں ہر وقت فضا میں گولیاں اڑتی رہتی تھیں۔ میں اپنے گھر جانا چاہتا تھا۔‘
لیکن خالد کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اس لیے پاکستان واپس آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
تقریبا 15 دنوں بعد انھیں شمالی افغانستان لے جایا گیا جہاں طالبان جنگ لڑ رہے تھے۔ انھیں وہاں زخمی جنگجوؤں کی تیمارداری کا کام دیا گیا۔
لیکن کچھ ہی دنوں میں طالبان نے وہ علاقہ خالی کرنا شروع کر دیا اور خالد اور کئی دیگر پاکستانیوں سے کہا گیا کہ اب وہ واپس اپنے گھر جا سکتے ہیں۔ ان کو بسوں میں سوار کردیا گیا لیکن ایک چوکی پر ان کو بسوں سے اتار کر باقی راستہ پیدل جانے کو کہا گیا۔
کچھ گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ان کو افغانستان کے خطرناک ترین جنگجو سرداروں نے پکڑ لیا اور تمام پاکستانیوں سے کہا کہ وہ ایک کنٹینر میں سوار ہو جائیں جو ان کو واپس ان کے ملک پہنچا دے گا۔
جن لوگوں نے کنٹینر میں جانے سے انکار کیا ان کو گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد تمام لوگ خوف اور پریشانی کی حالت میں جلدی جلدی کنٹینر میں سوار ہونے لگے۔ اس دوران خالد بے ہوش ہوگئے، اور اسی نے شاید ان کی جان بچالی۔
ان کو بعد میں پتہ چلا کہ جب وہ بے ہوش تھے تو سردار کے آدمیوں نے چاروں طرف سے کنٹینر کا گھیراؤ کرنے کے بعد اس پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ خالد ان 15 یا 16 افراد میں سے ایک تھے جو اس کنٹینر سے زندہ باہر آئے تھے
خالد کے بقول ہلاک ہونے والوں کے مردہ جسموں کو ایک صحرا میں پھینک کر ان پر پٹرول ڈال کر اگ لگا دی گئی۔
خالد کو قریبی علاقے مزار شریف کے ایک کمپاؤنڈ میں لے جایا گیا۔ لیکن وہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا بلکہ پانی کا ایک گلاس بھی مشکل سے ملتا تھا۔ قیدیوں نے احتجاج کیا کہ ’یا تو ہمیں مار دیں یا پھر آزاد کر دیں۔‘ لیکن اس کے بعد انھیں کابل کی ایک جیل میں ڈال دیا گیا۔
چھہ ماہ بعد پاکستان کے سفیر نے مداخلت کی اور 40 سے 50 قیدیوں کو واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ لیکن خالد اب بھی آزاد نہیں تھے۔ تقریباً ایک سال تک ان کو پاکستان کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ اور آخر ایک دن ان کو رہا کر دیا گیا۔اور وہ اپنے گھر جانے کے قابل ہوئے۔
’رہا ہونے کے بعد مجھے لگا کہ میں جنت میں آگیا ہوں۔ میرے گھر والوں نے میری شادی کروا دی اور مجھے نئی نوکری بھی مل گئی۔ میں اب بہت خوش ہوں۔‘
تو اب وہ ان لمحات کو کس طرح یاد کرتے ہیں؟
’میں ناتجربہ کار تھا۔ میں نے 12 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ میں صرف ایک دوسرا ملک دیکھنے کی خواہش میں وہاں گیا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ ایک اچھا تجربہ ہوگا لیکن وہاں تو تباہی تھی۔‘
اور یہ ہے خالد محمود کی کہانی اور اس دن سے شروع ہونے والی کہانی جب انھوں نے سوچا تھا کہ آج فلم دیکھنے جاؤں گا تو کتنا مزا آئے گا۔