زکام کی دوا صبح لیں تو اثر زیادہ ہوگا
ایک برطانوی تحقیق کے مطابق زکام کا دوا اگر صبح کے وقت کے وقت لی جائے تو وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں میں جسم کے ضدِ جراثیم یا اینٹی باڈیز زیادہ تھے مدافعانہ تھے جنہوں نے دوپہر کے کھانے سے قبل دوا لی۔
کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کی زندگی حفاظتی ٹیکوں کو جسم کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگی سے لگانے سے بچائی جا سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مطالعہ معالجے کے دوران جسمانی اوقاتِ کار کے استعمال کا آغاز ہو سکتا ہے۔
ہمارے جسم کے اوقاتِ کار کے مطابق اندورنی گھڑی ہمیں بتاتی ہے کہ کب چست رہنا ہے، مزاج کیسا ہوگا، ہماری جسمانی قوت کتنی ہے اور حتیٰ کہ ہماری روز مرّہ کی روانی بتاتی ہے کہ ہمیں دل کا دورہ پڑنے کا کتنا خطرہ ہے۔
دوا کے استعمال کے طریقے کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اس حوالے سے یونیورسٹی آف برمنگھم کی یہ تحقیق 65 کی عمر سے زائد 300 لوگوں پر کی گئی۔
زکام کی وجہ سے معمر افراد میں بیماریاں لاحق ہونے اور مرنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف برمنگھم میں تحقیق کار ڈاکٹر این فلپس کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج معنی خیز تھے اور ڈاکٹروں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ زکام کے ٹیکے صبح ہی لگایا کریں۔
انھوں نے
بتایا کہ ’کئی ہسپتالوں کو یہ کام ویسے ہی شروع کر دینا چاہیے کیونکہ اس سے نہ تو کوئی خرچ آتا ہے اور نہ اس سے مریض کو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اور اگر ہماری تحقیق غلط ثابت ہوئی تو پھر بھی اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔‘
’یہ بڑی شاندار بات ہے کہ این ایچ ایس میں اتنی آسان اور مفت مداخلت کی جا سکتی ہے۔‘
ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ صبح اور دوپہر کے مدافعاتی نظام میں کیا فرق ہے۔
مدافعاتی نظام پر اثر کرنے والے ’سائٹوکنز‘ ہارمون ، پریشانی سے وابستہ ’کورٹسول‘ نامی ہارمون اور جنسی ہارمون دن بھر کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔
سفید خون کے خلیات کی اپنی قدرتی گھڑی بھی بدلتی رہتی ہے۔
دوسرے دواؤں سے بھی مدافعتی نظام پر مختلف قسم کے اثرات ہوتے ہیں تو یہ طے کر لینا کہ ساری دوائیں صبح کو ہی دی جائیں غلط ہو گا۔
ہیپاٹائٹس بی کی دوا زیادہ مؤثر ہونے کی بنا پر دوپہر کے وقت دینے کی تجویز دی جاتی ہے۔
’ کرونوتھیرپی‘ جو جسم کی قدرتی گھڑی کے ہی وقت دوا دینے کا عمل ہے بہت مؤثر ہے اور کینسر اور جوڑوں کے درد کا علاج کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔