بلاگ

کندھے جھکے ہوئے تھے محبت جوان تھی

گزشتہ ماہ اہل خانہ کے ہمراہ آزاد کشمیر کے دورے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ویسے تو لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک ایسا واقعہ تحریر کرنا چاہتا ہوں جس نے نہ صرف میرے ساتھ موجود میری والدہ، میری خالہ اور میرے حلقہ احباب میں موجود ان لوگوں کو بھی انتہائی متاثر کیا جن سے میں اس قصے کا اب تک ذکر کرچکا ہے۔ اسلام آباد سے تقریباً نوے کلومیٹر دور کوہالہ نام کا ایک انتہائی حسین مقام واقع ہے جہاں لوگ اکثر چائے اور کھانے کے لئے قیام کرتے ہیں، دریائے نیلم کے ساتھ مقامی افراد نے کھانے پینے کا بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔ دریائے نیلم کے یخ بستہ پانی کے کنارے چارپائیوں پر بیٹھ کر کھانے کا انتظام انتہائی بہترین انداز سے کیا گیا ہے لوگ ٹھنڈے پانی میں پیر پھیلائے کھانے کا انتظارکرتے ہوئے حسین لمحات کو اپنے کیمروں میں قید کرتے نظر آتے ہیں۔

 اس مقام پر اس دن بھی کچھ 100 سے زائد افراد موجود تھے۔ ایسے میں وہاں کچھ ایسے لوگوں کو دیکھنے اور ملاقات کا موقع ملا جن کے بارے میں ہمارے معاشعرے میں بہت کم ہی توقع کی جاتی ہے۔ 60 سال سے زائد عمر کے پانچ جوڑے وہاں تشریف لائے جو سب کی توجہ کا ہی مرکز بن گئے۔ شدید بارشوں کے ٹھنڈے موسم میں 60 سال سے زائد عمر افراد کا کراچی سے 1600 کلومیٹر دور ہنی مون کپل کی طرح موجود ہونا واقعی اچنبھے کی بات ہے لہذا دیگر سیاحوں کا ان کو حیرانی سے دیکھنا کوئی معیوب بات نہ تھی۔ ان کا وہاں صرف موجود ہونا ہی حیرانی کی بات نہ تھی بلکہ ان پانچ ضعیف جوڑوں کی اپنی بیگمات کے ساتھ ایکسائٹمنٹ دیکھنے پر حیرانی کے ساتھ انتہائی خوشی بھی ہوئی، کوئی اپنی بیگم کا بیگ اٹھا کر اس کے لئے چائے اور پکوڑوں کو انتظام کر رہا تھا تو کوئی اس ٹھنڈے یخ پانی میں اپنی بیگم کے ساتھ کھڑے ہوکر سیلفیاں بنا رہا تھا ان افراد کی ایکسائٹمنٹ کو دیکھ کر مجھ سے تو رہا نہ گیا سوچا ان سے بات چیت ضرور کی جانی چاہئیے۔ ان تمام افراد کے پہنے اوڑھنے کے طریقے سے مجھے پتا چل گیا تھا کہ ان کا تعلق کراچی کی ایک مخصوص کمیونٹی سے جس کا ذکر کرنا یہاں کوئی مناسب بات نہ ہوگی۔ خیر میں نے جھٹ سے سوال کرڈالا آنٹی آپ کا تعلق یقیناً کراچی کے علاقے حیدری سے ہوگا تو آنٹی نے جواب دیا نہیں بیٹا ہم سب دوست ہیں اور مختلف علاقوں سے تعلق ہے۔ بس وہاں سے ان آنٹی سے بات چیت کا مختصر سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔۔ میں نے سوال کیا آنٹی آپ لوگ اس عمر میں اکیلے کیوں آئے ہوئے ہیں آپ کے بچے کیوں نہیں آئے تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا بیٹا ان سب کی شادی کردی ہے سب فارغ ہوچکے ہیں کسی کو ساتھ لے کر نہیں آئے۔ یہ سن کر میری والدہ اور مجھے بھی خوب ہنسی آئی پھر اتنے میں ویٹر ہمارا بل لے آیا اور ہمیں وہاں سے آگے بھی جانا تو ہمیں نکلنا پڑا۔

ہم مظفر آباد کی جانب نکل پڑے۔ ایسے میں مظفرآباد سے قبل ایک خوبصورت آبشار پڑتا ہے جسکا نام دھانی واٹر فال ہے اور جسے دیکھنے کے لئے دریا پار کرکے دوسری جانب جانا پرتا ہے ۔۔۔۔ جس کا واحد ذریعہ ہاتھ سے چلنے والی کیبل کار ہی ہے جسے دیکھتے ہی میرے ساتھ موجود میری خالہ اور میری والدہ نے وہاں جانے سے صاف انکار کردیا تو مجبورا مجھے وہاں ہمارے ڈرائیور کے ساتھ ہی جانا پڑا۔ وہاں سے فارغ ہوکر کیبل کار میں بیٹھ کر اپنی گاڑی کی طرف واپس پہنچا تو دیکھا انہی ضعیف جوڑوں کو ہائی ایس وہاں کھڑی تھی میں نے سوچا نہیں بھئی یہ لوگ اس جگہ نہیں جاسکیں گے کیونکہ اونچائی بہت زیادی تھی اور نیچے دریا ایسے میں نوجوان لوگ بھی ڈر جاتے ہیں وہ تو پھر سب ہی ضعیف لوگ تھے، لیکن نہیں بھئی ان 60 ائیرز ایڈینچررز کے تو پر ہی نکلے ہوئے تھے۔ بہت آرام سے دیکھتے ہی دیکھتے دریا کے دوسری جانب پہنچ گئے خیر ہمیں وہاں سے مظفر آباد پہنچنا تھا تو ہم چل دیے ۔۔۔۔۔ اگلے دن مظفر آباد سے وادی نیلم کا سفر شروع کیا تو راستے میں ایک اور واٹر فال پر جانے کا اتفاق ہوا ۔۔۔ جہاں کنارے پر ایک چھوٹا سا ڈھابہ موجود تھا تو فیملی کے ساتھ چائے کے لئے وہاں تھوڑی دیر قیام پذید ہوگئے ۔۔۔۔ وہیں ایک بار پھر سے ان افراد کی ہائی ایس وہاں آ گئی گویا ہمارے ہی پیچھے پیچھے چل رہے ہوں جیسے ۔۔۔۔ وہاں پھر اسی گروپ کے ایک صاحب سے بات چیت ہوئی انہوں نے پوچھا بیٹا آپ کیا وادی نیلم جا رہے تو میں نے جواب دیا جی ہاں اور پھر انہوں نے وہاں کے ہوٹلز کی تفصیلات طلب کیں۔ ایسے میں میں نے ان کے ساتھ موجود ایک خاتون سے پوچھا آنٹی کیا آپ سب کی ساتھ میں ایک تصویر لے سکتا ہوں تو وہ خوشی خوشی مان گئیں لیکن بارش تیز ہوجانے کے باعث یہ ممکن ہو نہ سکا اور ہم وہاں سے آگے نکل پڑے ۔۔۔۔ وادی نیلم پہنچ کر کیرن کے مقام پر ایک بار پھر انکی ہائی ایس دکھی لیکن وہ کسی دوسری جانب چل دیے اور ہم کسی اور جانب۔ مجھے وادی نیلم سے واپس لوٹے کافی دن گزر چکے ہیں لیکن آج بھی میں امید کرتا ہوں کہ کراچی میں کبھی ان افراد سےیقیناً ملاقات ضرور ہوگی جنہیں دیکھ ہرکوئی یہی کہے گا وہ بوڑھے ضرور ہیں لیکن ان کی محبت آج بھی جوان ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close