طالبان گارڈ فادر اور عمران خان کا اتحاد
بلاگ: عتیق الرحمان
ہماری سیاست میں ملکی مفادات اور نظریہ کی جگہ پارٹی و ذاتی مفادات نے لے لی ہے۔ جماعتوں و سیاستدانوں کی اکثریت کی تگ و دو صرف اقتدار کےحصول اور اسمبلی میں پہنچ کر الیکشن میں کی جانے والی انویسمنٹ سے منافع کے حصول پر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس نظام اور نام نہاد جمہوریت سے بیزار اور الیکشن کے عمل سے دور رہتی ہے۔
عمران خان اور انکی جماعت تحریک انصاف کا پاکستانی سیاست میں ظہور ایک نیک شگون تھا۔ نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد جو کہ پاکستانی سیاست سے دور اور عدم دلچسپی کا اظہار کرتی تھی، اُس نے بھی جلسے و جلوسوں اور سوشل میڈیا کی حد تک سیاست میں شرکت کردی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ جماعت بھی دوسری جماعتوں کی طرح ایک روائیتی سیاسی جماعت میں ڈھل رہی ہے۔ اس کا مطمع نظر بھی صرف اور صرف اقتدار کا حصول رہ گیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں نظریے اور اصول کی سیاست اور صحیح و غلط کی تمیز اب ختم ہوچکی ہے۔ مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کی بھر مار تحریک انصاف کا رخ کر چکی ہے اور اقتدار کی امید میں انہوں نے اپنا مفاد اس جماعت سے وابسطہ کرلیا ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے حال ہی میں مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی اور خیبر پختونخوا میں مل کر الیکشن لڑنے کی نوید سنائی. عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ ہم فطری اتحادی ہیں اور ہماری سوچ عوام کے مسائل پر یکساں ہے. یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمان ایم ایم اے کو دوبارہ فعال کرنے پر کمر بستہ ہیں اور جماعت اسلامی اور دیگر سابقہ ایم ایم اے کی جماعتوں کی حالیہ میٹنگ میں آنے والے الیکشن ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے لڑنے کا عندیہ سنایا ہے. اس کا زیادہ اثر تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں پڑے گا۔ اس آنے والے مسئلے کے توڑ کے لیے عمران خان نے ایک ایسی شخصیت سے ہاتھ ملایا ہے جو کہ طالبان کے حامی اور گارڈ فادر Father of Taliban کے نام سے مشہور ہیں۔ مولانا سمیع الحق کے طالبان سے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان کے شدت پسندانہ نظریات اور دہشتگردانہ کارروائیوں کی بناء پر پاکستان نے 70 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے۔
پی ٹی آئی کی پالیسی خیبر پختونخوا کے علاوہ دیگر صوبوں میں ایک لبرل جماعت کی ہے جس کے جلسوں میں متوسط اور اپر کلاس کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن دوسری جانب عمران خان صاحب نے ماضی میں پختونخوا میں سیاسی فوائد کے حصول کے لیے طالبان کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی اور انکے لیے دفتر کھلوانے کی آواز بلند کی. آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد عوامی ردعمل اور پاک فوج کے ہر صورت آپریشن کا ارادہ دیکھتے ہوئے خان صاحب نے چپ سادہ لی. یہی وجہ ہے کہ انکے ناقدین انہیں طالبان خان کا نام دیتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت نے اس سے قبل بھی حکومتی فنڈز سے 300 ملین کی کثیر رقم مولانا سمیع الحق کے دار العلوم حقانیہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو گرانٹ کے طور پر دی اور اسی ماہ مولانا سمیع الحق کی زیر قیادت اسلامی ریفارمز کا شوشہ چھوڑا. آخر تحریک انصاف کس قسم کی ریفارمز چاہتی ہے۔ کیا وہ پاکستان میں ایک بار پھر طالبان اور دہشتگردی کا راج دیکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کیا وہ چاہتی ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا جائے اور دہشتگردی کا سویا ہوا جن ایک بار پھر جاگ جائے۔
عوام یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ پاکستانی نظام میں رہنے اور الیکشن کے کھیل میں شریک رہنے والی کوئی بھی جماعت اسکی خرابیوں سے بچ نہیں سکتی۔ تبدیلی کے نعرہ والی عمران خان کی سیاسی جماعت بھی ایک روائیتی جماعت میں تبدیل ہوگئی ہے۔
تحریک انصاف جس کے کارکنان دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرح نظریاتی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی تربیت کے عمل سے گزرے ہیں۔ان کی اپنی جماعت اور قیادت سے وابستگی اتنی گہری نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی صورتحال سے مایوس اور متنفر ہو رہے ہیں. اگر تحریک انصاف کی روش ایسی ہی رہی اور پالیسیاں کسی اصول اور نظریہ کے بجائے مفاد اور فائدے کے تحت بنتی رہیں تو اس کے کارکن کسی اور مسیحا کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے جیسا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہوا۔