حکومت کے منہ پر طمانچہ: ننھی سکینہ کی شہادت
بلاگ: محمد عارف میمن
ایم اے جناح روڈ پر بسوں کی ریس نے گھر سے اسکول جانے والی ایک ننھی پری کی جان لے لی۔ خبر آئی، ہم نے سنی اور پھر شام تک وہ ماضی کا قصہ بن گئی۔ لیکن والدین کی اکلوتی بیٹی 4 سالہ ننھی سکینہ نے جاتے جاتے آج پھر کئی سوالات اٹھا دیئے اور ساتھ ہی حکومت کے منہ پر طمانچہ بھی دے مارا۔ یہ الگ بات ہے کہ خواب خرگوش کے مزے لینے والی حکومتیں اسے محسوس کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہونے کے باوجود ابھی تک ٹریفک کے مؤثر نظام سے محروم ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو سڑکوں پر کھڑا کردینے اور چند لائسنس برانچز بنادینے سے نظام مکمل ہوجاتا ہے تو اسے احمقوں کی جنت میں رہنے والا ہی کہا جاسکتا ہے۔
جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو سیاسی مداری ٹاک شوز میں آکر یورپی ممالک کے نظام کی بات کرتے ہیں، مگر اپنے ملک میں اس نظام کو رائج کرنے میں آج تک کسی نے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سندھ کا وزیر ٹرانسپورٹ کون ہے؟ شاید ہی عوام کو اس بارے میں معلوم ہوگا۔ عوام تو دور کی بات، ممکن ہے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی وزیرٹرانسپورٹ کو ڈھونڈنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔
کراچی میں آج بھی تیس سے چالیس سال پرانی بسیں سڑکوں پر بدمست ہاتھیوں کی طرح دندناتی پھررہی ہیں۔ ان بسوں اور کوچز کی میعاد عرصہ دراز پہلے ہی ختم ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں چند روپوں کے عوض بغیر کچھ سوچے سمجھے سڑکوں پر لانے کا اجازت نامہ تھما دیا جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ لائسنس برانچز میں بھی یہی سب کچھ چل رہا ہے، سفارشی اور بھاری رشوت دینے والا کسی ٹیسٹ کا محتاج نہیں اور غریب وہاں بھی کئی بار ٹرائل دینے کے بعد بھی لائسنس سے محروم رہتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر سب کو لائسنس جاری کردیئے تو پھر ان کی اندھی کمائی کا ذریعہ بند نہ ہوجائے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ٹوکن سسٹم رائج نہیں مگر کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں یہ نظام پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، جس کے باعث خونی حادثات و واقعات اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ سڑکوں پر موجود کالی بھیڑیں ان ریس لگاتی گاڑیوں کا چالان کرنے سے کتراتی ہیں۔ وجہ صرف وہی چند روپے ہیں جن کی بدولت ان کا یہ کرپٹ نظام چل رہا ہے۔
ایسے کتنے ہی حادثے اور سانحے آئے روز اخبارات اور ٹی وی کی ہیڈلائنز میں شامل ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ کہیں والدین کا اکلوتا سہارا اس کرپٹ نظام کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے تو کہیں اپنی آنکھوں میں ڈاکٹر بننے کے خواب سجانے والی طالبہ ریس لگاتی بسوں کی زد میں آکر اس جہاں سے رخصت ہوجاتی ہے۔ چند سال قبل بلدیہ ٹاؤن میں پیش آنے والا واقعہ ننھی سکینہ کی طرح کا ہی ہے، جب ایک نوجوان نکاح سے صرف دو گھنٹے قبل ضروری کام کے تحت گھر سے اپنے ایک عزیز کے ساتھ باہر نکلا اور چند منٹوں بعد ہی وہ سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس نااہل اور کرپٹ نظام پر سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ ان تمام حادثوں کی وجہ ایک ہی رہی مگر گھرانے سیکڑوں برباد ہوئے۔
ہم روزانہ سڑکوں پر مشاہدہ کرتے ہیں کہ بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سوار کو دیکھ کر کس طرح پولیس کی آنکھ میں چمک آجاتی۔ دور سے ہی اسے رکنے کا اشارہ کرکے سائیڈ پر لے جایاجاتا ہے اور عموماً صرف پچاس روپے میں اپنا ایمان بیچ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ کوئی گناہ نہیں۔
جی ہاں! یہ ایک ٹریفک پولیس اہلکار کا جواب ہے کہ سو پچاس روپے لینا رشوت کے زمرے میں نہیں آتا، نہ ہی اس پر کوئی گناہ ہ ہے؛ جس کی وجہ اس نے کچھ اس طرح بیان کی کہ ہمیں سرکار پیٹرول کے پیسے نہیں دیتی تو ہم اس طرح پیٹرول کے پیسے پورے کرتے ہیں۔
آئی جی سندھ اس حوالے سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پولیس کا نظام دو صدی پرانا ہے، اس میں تبدیلی انتہائی ضروری ہے۔ مگر اس میں تبدیلی کرنے والے اپنے اپنے مفادات کو مدِنظر رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس میں سیاسی بھرتیاں، جعلی ڈگریاں، نااہل اور کرپٹ لوگوں کی بھرمار ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں جو اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ گھناؤنے کام پولیس سرپرستی میں آج بھی جاری و ساری ہیں جنہیں کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ قانون اتنا طاقتور نہیں کہ وہ ان کے خلاف سخت کارروائی کرسکے۔
کراچی میگا ٹرانسپورٹ پروجیکٹ کے حوالے سے ہم گزشتہ کئی سال سے سنتے آرہے ہیں۔ مگر یہ ایسی کونسی راکٹ سائنس ہے جو مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ درحقیقت حکومت سندھ ٹرانسپورٹ مافیا کے سامنے ہمشیہ کی طرح آج بھی بالکل بے بس ہے۔ وزیرِٹرانسپورٹ نے اب تک جتنے بھی اجلاس ان کے ساتھ کیے، وہ صرف ان لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے کیے ہیں کیوں کہ وہ انہیں جلسوں اور جلوسوں کےلیے اپنی گاڑیاں فراہم کرتے ہیں اور بدلے میں من مانے کرائے بڑھاکر اپنا پیسہ سود سمیت واپس لے لیتے ہیں۔ کسی حادثے میں کوئی گاڑی جل جائے، اس کا پیسہ انہیں الگ سے دیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر ہونے والا حادثہ کوئی پرانا تو نہیں مگر اس کا معاملہ کسی انجام کی طرف بڑھتا نظر نہیں آرہا۔ ان تمام حقائق سے عوام باخبر ہیں مگر ہماری حکومت اور اس کرپٹ نظام کو چلانے والے آج بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔ اس ٹریفک نظام پر عوام نے 1970 کی دہائی میں ہی فاتحہ پڑھ لی تھی جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے ٹرام بند کرکے ٹرانسپورٹ کا بنا بنایا نظام پرائیویٹائز کردیا تھا؛ اور آج یہی لوگ کہہ رہے کہ ہم اس شہر کےلیے جدید ٹرانسپورٹ نظام بنارہے ہیں۔ یہ عوام سے انتہائی بھونڈا مذاق ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کے نام پر بھی عوام کو اب تک بے وقوف ہی بنایا جارہا ہے۔ سرکلر ریلوے کےلیے زمینوں پر انہی سیاسی مداریوں نے اپنے حمایتیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے قبضے کروا رکھے ہیں جو اب کچی آبادیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، جنہیں لیز بھی فراہم کردی گئی ہے۔ اب اگر ان سے زمین واپس لی جائے تو بدلے میں اربوں روپے عوام کے پیسوں سے ان کو ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کرایا گیا، کیوں کہ یہاں بات کسی ننھی سکینہ کی نہیں بلکہ اربوں روپے اور ووٹ بینک کی ہے۔