بلاگ

کیرالہ کے پاکستانی شہریوں کا درد

کیرالہ میں کوچی کے مالا بار کے علاقے میں رہنے والے اسی سال کے پچائی ابو بکر اور ان جیسے دیگر لوگوں کو کیرالہ میں انتخابات کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی دوسرے سیارے سے آئے ہوں۔

جب کیرالہ کے دوسرے رہائشی ووٹ دیتے ہیں تو وہ اور ان جیسے کیرالہ کے دو سو پاکستانی شہری دور سے دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ یہاں پیدا تو ہوئے لیکن انھیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

یہ لوگ تقسیم سے پہلے یا اس کے بعد بیرون ملک جانے کی کوشش میں پاکستان جا پہنچے تھے۔ پھر ان کے ساتھ وہ شناخت چپک گئی جس سے انھیں چھٹکارا نہیں مل رہا ہے۔

ملہ پورم کی چيكوڈے پنچایت میں رہنے والے ابو بکر پر’پاک شہری‘ ہونے کی مہر 18 سال کی عمر سے لگی ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’میں پیدائش سے کیرالہ کا ہوں لیکن کام کی تلاش میں ممبئی سے کراچی کے سفر نے سب کچھ بدل دیا‘۔

ابراہیم مگالاسري نے کراچی کے ایک ہوٹل میں 1993 تک کام کیا۔ وہ کہتے ہیں،’مجھے نہیں پتہ تھا کہ گھر واپس آنے کے لیے مجھے پاکستانی پاسپورٹ لینا ہوگا۔

انکا کہنا ہے کہ ہندوستان کی شہریت کی ان کی درخواست 16 سال سے زیر التوا ہے۔

غیر ملکیوں کے علاقائی رجسٹریشن دفتر کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملہ پورم ، کنّور اور كوذی كوڈ ضلع میں 189 ’پاکستانی شہری‘ ہیں۔

کنور میں 131 اور ملہ پورم میں 50 ایسے شہری رہتے ہیں۔ 2011 میں ریاست میں ایسے ’پاکستانی شہریوں‘ کی تعداد 248 تھی۔

ان میں سے 119 لوگوں نے بھارتی شہریت کے لیے درخواست دی ہے، جسے وزارت داخلہ کو بھیج دیا گیا ہے۔ اب معاملہ زیرِ التوا ہے۔

پاکستان سے واپس آکر یہ لوگ اپنے آبائی اضلاع میں بس تو گئے لیکن انھیں بھارتی شہریت نہیں ملی ہے۔78سال کے موسی كٹلوے لياقت کنّور میں اپنے گاؤں كاتھنور میں ڈھلتی عمر کی پریشانیوں سے دو چار ہیں۔

انھیں طویل مدت کا ویزا ملا ہوا ہے جسکی تجدید انھیں ہر سال کروانا پڑتی ہے۔ انھیں اب بھی امید ہے کہ وہ ملک کے جمہوری عمل میں کم از کم ایک بار ضرور شامل ہو پائیں گے۔

وہ پاکستان میں کام کر رہے تھے جب انھیں شادی کرنے کے لیے بھارت آنا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خاندان نے میرے لیے کیرالہ میں ایک لڑکی تلاش کی تھی۔ کراچی میں میرے ایجنٹ نے مجھے بتایا کہ واپس جانے کے لیے مجھے کاغذات کی ضرورت پڑے گی اور اس طرح مجھے گھر واپس جانے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ پر بھارتی ویزا کے لیے درخواست دینی پڑی۔‘

موسیٰ کو تب قطعی اندازہ نہیں تھا کہ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ انھیں اپنی بھارتی شہریت چھوڑنی ہوگی۔

حسن اور ان کا خاندان 2008 میں ہندوستان واپس آیا تو وہ کیرالہ کے ’پاکستانی شہریوں‘ کے چھوٹے سے گروپ کا حصہ بن گیا۔

موسیٰ کہتے ہیں، ’میں اپنی سرزمین پر ایک بار ووٹ ڈالنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے یہی میری شناخت ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close