"جب محافظ ہی قاتل بن جائے” – مشہور کرکٹرراشد لطیف کا ایک طنز
جب محافظ ہی قاتل بن جائے – راشد لطیف
ویسے تو آفتاب روز نکلتا ہے اور روز ہی ڈوبتا ہے لیکن دو مئی کو جس آفتاب کو ڈبویا گیا وہ شاید دوبارہ نہیں نکلے گا لیکن کراچی سے آزاد کشمیر تک سب کو پاؤں سے سر تک ہلا کر چلا گیا اور یہ پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے ان گنت ماورائے عدالت قتل ہوتے رہے ہیں کیونکہ انا پسند لوگوں کو ” نہ ” پسند نہیں ہوتیں چاہے وہ ” نہ ” بلوچستان میں ہو یا “مقبوضہ کراچی” میں۔
اس طرح کہ تحقیقات تو وقاص شاہ کے قتل کی بھی ہونی چاہئے۔ ۱۱ مارچ ۲۰۱۵ سے آج سال ہو گیا لیکنk اس کے دن دہاڑے قتل کا کوئ ذکر ہی نہیں۔ ٹی وی چینلز کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ کسی طرح ثابت کر دیں کہ اس کا قتل محافظوں نے نہیں کیا ہے بلکہ الطافیوں نے کیا ہے ، چلیں مان بھی لیں کے اس کا قتل الطافیوں نے کیا تھا تو محافظوں نے وہاں سے دوڑ کیوں لگا دی قاتلوں کو وہیں گرفتار کیوں نہیں کیا ؟ وقاص کے جو نام نہاد قاتل پکڑے تھے وہ کہاں ہیں اور اگر وہ قاتل نہیں ہیں تو وہ الٹے ہاتھ سے پستول اور سیدھے ہاتھ سے ڈنڈا چلانے والا نقاب پوش فرشتہ کہاں ہے؟
ماورائے عدالت قتل کی ایک اور بھیانک مثال طارق محبوب صاحب کی ہے جنکے آخری الفاظ کورٹ میں یہ تھے ” یا اللہ یا رسول طارق محبوب بے قصور ” اور اسکے بعد ۹۰ دنوں کے ریمانڈ پر چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں میں دل کا دورہ پڑا اور خون سے لت پت لاش گھر روانہ کر دی گئی کیا اسکی بھی انکوائری ہوگی؟
میڈیا کے توسط سے لوگوں کا کہنا یہ ہے کے یہ لوگ مظلومیت کا رونا کیوں روتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کسی وجہ سے ہتھیار اُٹھایا تھا وہ بھی غلط تھا لیکن محافظ تو اوتھ لیتا ہے پاکستان کے لیئے اور ایمانداری سے کام کرنے کی قسمیں کھاتا ہے کیا وہ ساری قسمیں جھوٹی تھیں ؟ کیا قومیت کی بُنیاد پر لوگوں کو مارنے کی قسمیں کھائیں تھیں ؟ اب لواحقین تو بولنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے محافظ کو اس مُلک کے محافظوں نے مار ڈالا ، کیا لواحقین اس پاک سر زمین سے محبت کریں گے؟ محافظوں کا کام پاک سر زمین پارٹی بنانے کا ؟
ایسا تو مقبوضہ کشمیر میں نظر نہیں آیا جو کراچی اور بلوچستان میں پچھلے تیس سالوں میں ماورائے عدالت قتل کی داستانیں ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جو لوگ بھتہ لیتے ہیں ، کھالیں چھینتے ہیں اور ” را ” سے پیسے لیتے ہیں اُنکے نام پانامہ پیپرز میں نہیں آ رہے ویسے انکے پاس تو سب سے زیادہ پیسہ ہونا چاہیے تھا ۔
پاکستان میڈیا ہاوسز نے پچھلے تین سالوں سے ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے لیکن نہ بھتے والے پراپرٹی خرید رہے ہیں نہ کھالیں چھیننے والے کراچی میں اپنا مکان بنا پا رہے ہیں اور نہ ہی را” سے پیسے لیکر آف شور کمپنی” بنا پا رہے ہیں انکا پیسہ کیسا پیسہ ہے جس سے کچھ خرید نہیں سکتے ؟ ہاں وہ لوگ سب ننگے ضرور ہو رہے ہیں جو ان را کے ایجینٹوں کا پروپیگنڈہ مخصوص میڈیا ہاوسز کے توسط سے کیے جا رہے ہیں۔
یکم مئی ۱۹۹۳ عظیم احمد طارق ، ڈاکٹر عمران فاروق ، ولی بابر ، ۱۲ مئی ، منی لانڈرنگ ، بلدیہ ٹاون فیکٹری ، حقیقی ، صولت مرزا، حکیم سعید ، جناح پور ، پاک سر زمین سب خیابان ( محافظ ) سے شروع ہو کر خیابان سحر میں آ کر دفن ہو رہے ہیں ۔۔
ایک واقعہ بیان کرتا چلوں ایک کھلاڑی کے والد صاحب کو سادہ سے لوگ ڈبل کیبن میں بڑے پیار سے بٹھا کر لے گئے تھے ان لوگوں نے بہت ڈھونڈا لیکن ان کے والد صاحب کا کچھ پتا نہ چلا اور ۱۵ دنوں کے بعد انکی لاش ایدھی ٹرسٹ میں آئ اور انکو امانتاً دفنا دیا گیا لیکن ایک دو دنوں کے بعد انکی قبر کھود کر پہچانا جاتا ہے تو وہ بھی ایک مظلوم آفتاب کی مانند تھا جس کی لاش چیخ چیخ کر پُکار رہی تھی-
” وہ مجرم شاہی غنڈے تھے
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا”۔
جی یہ اس کھلاڑی کے والد کی لاش تھی جسکو ابھی بھی نہیں پتہ کہ اسکے والد کو کیوں مارا گیا اور اسکے بعد اس کھلاڑی نے دوبارہ میدان میں قدم نہیں رکھا۔
سلسلہ یہاں بند نہیں ہوتا، اور کافی لڑکوں کو ان کے دفتروں سے اُٹھا لیا جاتا ہے اگر آسامی تگڑی ہوتی ہے تو ایک رات کا کرایہ تین لاکھ دو راتوں کا کرایہ چھ لاکھ اور اسکے بعد رہائی ہو جاتی ہے ورنہ کوئی نا کوئی کیس ٹھوک دیا جاتا ہے ورنہ اسکو ہی ٹھوک دیتے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت وقت کو سوچنا ہو گا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل سے آج تک کراچی اینٹی اسٹیبلیشمینٹ کیوں رہا ہے ؟
اب اسکا حل کراچی آپریشن نہیں ہے کیونکہ یہ عارضی سکون ہے اسکے مُستقل حل کیلئے برابری کے حقوق دئیے جائیں کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے ، فوج میں نوکریاں دی جائیں ویسے بھی بھارت سے تربیت حاصل کی ہوئی ہے ، سرکاری نوکریاں برابری کی بُنیاد پر دیں جائیں ، شہری حکومتوں کو بحال کیا جائے کراچی ، حیدر آباد اور سندھ میں مردم شُماری کروائی جائے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائیگا کس بات کا خوف ہے سب کو ؟
ان کو سوچنا ہو گا کراچی الگ کیوں سوچتا ہے ؟ وہ اس لیئے کہ کراچی کا شہری باشعور ہے سیاسی شعور رکھتا ہے اس ہی لیئے ہر پروپیگنڈے کو منہ کی کھانا پڑتی ہے اور ووٹ انکا ہی ہوتا ہے چاہے این اے دو چھیالیس ہو چاہے پینتالیس ہو چاہے بلدیاتی انتخابات ہوں ۔
جتنی محنت ایک پارٹی کو ختم کرنے میں لگا دی اس سے آدھی محنت کشمیر میں کر لیتے تو شاید کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا ۔
جاتے جاتے ایک سوال آپ کے سامنے رکھ کر جا رہا ہوں اسکا فیصلہ آپ لوگ کرینگے۔ جو سلوک آفتاب احمد کے ساتھ ہوا، کیا صولت مرزا کے ساتھ بھی وہی سلوک نہیں ہوا ہوگا؟ کیا صولت کے ساتھ تشدد نہیں کیا گیا ہو گا؟ کیا اس طرح کرنٹ نہیں لگایا گیا ہو گا ؟اگر اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا ہو تو اُسکی پھانسی جائز تھی ؟ اور شاہد حامد کی اہلیہ نے پھانسی والے دن کاشف عباسی کے پروگرام میں کہہ ہی دیا کہ میں نے صولت کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور ان کہ اہلیہ ہی پہلی اور آخری چشم دید گواہ تھیں جن کی گواہی پر پھانسی کا تختہ تیار کیا گیا تھا اور اس پروگرام کے بعد آج تک صولت کا ذکر دوبارہ کسی پروگرام میں نہیں کیا گیا ۔
جنرل راحیل شریف صاحب ہمیں بھی شُکریہ کا موقع دیں اور صرف آفتاب کی نہیں بلکہ تمام ماورائے عدالت مارے جانے والے لوگوں کی انکوائری کروائیں ورنہ باشعور لوگ آپکو بھی شیر ایشیا ایوب خان ، مرد مومن ضیا الحق ، آصف نواز ، پرویز مُشرف اور کیانی کی صف والا ہی سمجھیں گے ۔
اس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں
کئی گھروں کو نگلنے کے بعد آتی ہے
مدد بھی شہر کے جلنے کے بعد آتی ہے