جون ایلیا کا ایک اور شاہکار 10 مئی کو منظرِ عام پرآ گیا ہے
جون ایلیا – بے مثل و بے بدل شاعر ادیب اور فلسفی کا نام ہے، جون محض ایک شخص نہیں بلکہ اردو ادب کا ایک دور ہیں جن سے آج اور آنے والے وقت کے اردو دانوں کو مفر ممکن نہیں ہوسکے گا۔
کہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی شہرت کے بام ِعروج پرپہنچے والے ادیب زمان ومکاں کی سرحدوں سے ماورا صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور جب بات جون ایلیا جیسے مصنف کی ہو تو ان کے مداح اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ جون وہ شاعرو ادیب ہیں کہ جو اپنی زندگی میں لازوال شہرت کے حامل تھے۔
یہ کہا جساسکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں کے لیے جون ایلیا یقینا ً ادب کی ایک نئی طرز کادرجہ رکھتے ہیں اوربہت سے نوجوان ان کی نثری خدمات کے بجائے ان کی شعری معرکہ آرائیوں کے دلدادہ ہیں لیکن جون کے انشائیوں پر مشتمل کتاب فرنود کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نوجوان نسل ان کی نثر کو بھی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ آج کے حالات سے ہم آہنگ کرتی نظرآتی ہے۔
زیرِ نظر تحریر کا مقصد جون ایلیا کی آئندہ روز شائع ہونے والی کتاب ’راموز‘ کا تعارف کرانا ہے جس کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ جون ایلیا کی زندگی کی یہ کتاب اردو ادب میں تحقیق کے نئے ابواب وا کرے گی۔ راموز اٹھارہ الواح پرمشتمل ایک رزمیہ نظم ہے جو کہ اردو شاعری کو ایک نئی جہت اور نئی وسعت عطا کرے گی۔
جون ایلیا کی لافانی شہرت کا سبب انکے شعری مجموعے شاید، یعنی ، گویا، لیکن اور گمان ہیں جب کہ ان کی نثری ہمہ جہتیوں کا ثبوت فرنود فراہم کرتی ہے اور آئندہ روز بازار میں آنے والی کتاب راموز رزمیہ شاعری میں اردو اور جون ایلیا کے مقام کا تعین کرے گی۔
خالد احمد انصاری جو کہ جون ایلیا کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے کام کو منظرِعام پر لانے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ 133 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو انہوں نے مختلف ابواب میں منقسم کیا ہے اور دانش رضا کے آرٹ ورک سے اس کی تزئین کی گئی ہے ، خالد کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ جون اسے دیکھنا چاہتے تھے۔
خالد احمد انصاری کہتے ہیں کہ یہ کتاب جون کا ایک عظیم کارنامہ ہے جس پر جون نے برسوں کام کیا، اس کے ایک اک لفظ اور مصرعے کو کئی بار پرکھا اور خون تھکواد ینے والی ذہنی مشقت کے مرحلے سے گزارا جس سے گزر کر راموز بلاشبہ ایک شاہکار کا درجہ حاصل کرنے جارہی ہے اور جون کے بارے میں دنیا کا نظریہ تبدیل کرکے رکھ دے گی۔
خالد کے مطابق جون کا یہ کام ان کے پاس شروع سے ہی موجود تھا تاہم اسے اشاعت کے قابل بنانا انتہائی دشوار گزارامر تھا جس کے سبب انہوں نے اسے ایک جانب رکھ کر پہلے جون کے دیگر کلام کو شائع کرانے پر توجہ دی اور اس کے بعد راموز کی جانب متوجہ ہوئے جس کی تدوین کرنے میں انہیں لگ بھگ ساڑھے تین سال کا عرصہ لگا۔ اس کتاب میں ایک مختصر لغت بھی شائع کی گئی ہے جو کہ مشکل الفاظ اور جون کے زبان و بیان کو سمجھنے میں مدد دے گی ، خالد سمجھتے ہیں کہ جون کے مقبول کلام کو پڑھنے والوں کے لئے یہ ایک ثقیل ڈوز ثابت ہوگی۔
خالد کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اٹھارہ الواح پر مشتمل ہے اور ہر لوح کی ایک اپنی کہانی ہے جو کہ کسی دوسری لوح سے متصادم نہیں ہوتی، جون نے یہ الواح اپنے مخصوص انداز میں تحریر کی ہیں ۔
خالد احمد انصاری اس کتاب کو پیش کرنے میں شکیل عادل زادہ، ایچ اقبال اور اسد محمد خان کے ممنون ہیں کہ جن کی مدد سے انہیں جون کے تحریر کردہ مخطوطے کو سمجھنے میں مدد ملی۔ خالد کے مطابق زاہدہ حنا جون ایلیا کی زندگی میں اس وقت آئیں جب وہ اس کام کی تکمیل میں مصروف تھے ۔ اس کتاب میں زاہدہ حنا، پروفیسرسحرانصاری اور جون ایلیا کے کزن ممتاز سعید کے جون پرمضامین بھی شامل ہیں۔
جون ایلیا کی جونیت سے بھرپور’راموز‘ 10 مئی سے ان کے مداحوں کے لیے مارکیٹ میں موجود ہوگی اور خوشخبری یہ ہے کہ جونیت کا یہ سلسلہ یہیں تمام نہیں ہورہا بلکہ اس کے بعد ان کا شعری مجموعہ ’کیوں‘ قارئین کے ذوق کی تسکین کا سبب بنے گا۔