بلاگ

وہ جو بےنام دفن ہوگئے

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو برس کے دوران اندازہ ہے کہ آٹھ ہزار افراد یورپ پہنچنے کی کوشش میں مارے گئے۔

زیادہ تر ہلاکتیں سمندر میں ڈوبنے سے ہوئیں اور ان کی لاشیں بہہ کر یونان، اٹلی اور ترکی کے ساحلوں پر آئیں۔

لیکن ان کی پروا کسے ہے؟ انھیں کہاں دفنایا گیا؟ اور میلوں دور رہنے والے رشتہ دار کیسے پتہ لگا سکتے ہیں کہ مرنے والوں میں ان کے پیارے بھی شامل ہیں یا نہیں؟

فاروق کی کہانی

چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں فاروق کی داڑھی سیاہ سے سفید ہوگئی۔

28 اکتوبر 2015 کو انھوں نے آخری مرتبہ اپنے بھائی غلام سے فون پر بات کی۔

طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے بعد جانوروں کے ڈاکٹر غلام نبی پکار نے اپنی اہلیہ، تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ہمراہ پناہ کی تلاش میں یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

افغانستان کے شہر ہرات میں موجود فاروق کو ان کے بھائی غلام نے بتایا کہ وہ لوگ ترکی پہنچ گئے ہیں۔ وہ ایک انسانی سمگلر کی کشتی پر اس امید کے ساتھ سوار ہونے کے منتظر تھے کہ وہ انھیں یونانی جزیرے لیسبوس لے جائے گی۔ غلام نے وہاں پہنچنے پر دوبارہ کال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ خاندان اسی سمندری راستے پر سفر کرنے والا تھا جو اس سال ترکی سے سمندر عبور کر کے لیسبوس پہنچنے کے لیے کوشاں لاکھوں دیگر افراد نے اپنایا تھا۔

کئی گھنٹے تک بھائی کی کوئی خبر نہ ملنے کے بعد فاروق نے اس سمگلر سے رابطہ کیا تو انھیں یہ خبر ملی کہ ان کے بھائی کو لے جانے والی کشتی ڈوب گئی تھی۔

تاہم سمگلر کا کہنا تھا کہ اس پر سوار زیادہ تر افراد کو بچا لیا گیا تھا اور فاروق غلام کی کال کا انتظار کرے۔ وہ کال جو کبھی نہیں آئی۔

فاروق نے اپنے بھائی کی لاش ایک تصویر میں دیکھی۔ ان کی لاش لیسبوس میں ایک ساحل پر پڑی تھی۔

اس رات غرق ہونے والی کشتی سے 242 افراد کو بچایا گیا لیکن درجنوں کے لاپتہ ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا

جہاں 50 سالہ غلام اور ان کی 34 سالہ اہلیہ کی لاشیں مل گئیں وہیں ان کے چار بچوں، 16 سالہ تمیم، 14 سالہ صمیم، 12 سالہ نازلہ اور 10 سالہ حصیم کا کچھ پتہ نہیں چلا۔

فاروق آج بھی پرامید ہیں کہ یہ بچے زندہ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہوں گے تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ سمندر میں ڈوبنے کے بعد لاوارث ہونے کی وجہ سے بےنشان قبروں میں دفن کر دیے گئے ہوں۔

لاشوں کو کہاں دفنایا گیا ہے؟

بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش میں مرنے والے ایک ہزار سے زیادہ پناہ گزین اٹلی، یونان اور ترکی میں بےنشان قبروں میں دفن ہیں۔

لاشیں کشتی کی غرقابی کے دنوں یا پھر ہفتوں کو بعد بری حالت میں ساحل تک پہنچتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی شناخت کا عمل انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ دیگر واقعات میں پورا کا پورا خاندان ہی سمندر برد ہوگیا اور ان کی لاشوں کی شناخت کرنے والا کوئی نہ رہا۔

بےنشان قبروں میں دفن پناہ گزینوں کی درست تعداد جاننا مشکل ہےکی تحقیق دستیاب اعدادوشمار اور مقامی حکام سے بات چیت پر مبنی ہے لیکن یہ اعدادوشمار حقیقت کے قریب تر ہیں۔ پناہ گزینوں اور ساحلوں پر بہہ کر آنے والی لاشوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے کوشاں یونان اور ترکی میں کچھ مقامی حکام نےبات چیت میں تسلیم کیا کہ وہ تدفین کا درست ریکارڈ رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔بحیرۂ روم کے شمالی ساحلی ممالک اٹلی، یونان اور ترکی تک محدود تھی۔ جنوبی بحیرۂ روم میں بھی غرق ہونے والی کشتیوں کے ثبوت ملے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزین لیبیا میں بھی بےنشان قبروں میں دفنائے گئے ہوں لیکن لیبیا میں سکیورٹی کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے وہاں سے اعدادوشمار جمع نہیں کیے جا سکے۔

مزید براں، استنبول کے کیلیوس قبرستان میں موجود 880 بےنام قبریں اس گنتی میں شامل نہیں کیونکہ حکام اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ ان میں سے کتنے وہ پناہ گزین تھے جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں مارے گئے۔

بچوں کی تلاش

تصویر میں اپنے بھائی کو پہچاننے کے بعد فاروق نے جرمنی میں مقیم اپنی بہن کو کال کی اور یہ خبر دی۔ وہ اپنے خاوند کے ہمراہ لیسبوس پہنچیں اورغلام اور ان کی اہلیہ کی لاشیں شناخت کیں۔

لیکن ان کے بچوں کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔

‘جب میں آن لائن تلاش کر رہا تھا تو مجھے ایک واقعے کی تصویر ملی جس میں ایک رضاکار کے ہاتھوں پر ایک بچہ تھا جو زندہ لگ رہا تھا اور بالکل میرے ایک بھتیجے جیسا تھا۔‘

فاروق نے اس رضاکار کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے بتایا گیا کہ وہ تصویر کھینچے جانے کے کچھ عرصہ بعد لیسبوس سے چلا گیا تھا۔ فاروق کی بہن اور بہنوئی غلام کی اہلیہ کی لاش افغانستان بھجوانے میں کامیاب رہے۔

فاروق کے بھائی کشتی کے جس حادثے میں ہلاک ہوئے، اس کے بعد لیسبوس کے قبرستان میں جگہ ختم ہوگئی۔ نتیجتاً مقامی حکام نے کاتوتریتوس کے دوردراز گاؤں میں زیتون کے ایک باغ کے ساتھ تدفین کے لیے جگہ مختص کر دی۔

غلام ان ابتدائی افراد میں سے تھے جو کاتوتریتوس میں دفنائے گئے۔ اس کے بعد سے وہاں 70 سے زیادہ افراد دفنائے جا چکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ کی شناخت نہیں ہو سکی۔

مارچ اور اپریل 2016 کے درمیان اٹلی، یونان اور ترکی میں موجود کئی بےنشان قبروں پر تحقیق کی۔

ذرائع میں مقامی حکام سے بات چیت شامل تھی لیکن زیادہ تر اعدادوشمار قریب ترین اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ لیبیا میں بھی بےنشان قبروں میں پناہ گزین دفن ہوں لیکن وہاں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ڈیٹا جمع نہیں کیا جا سکا۔

ایسے واقعات کا ڈیٹا جن میں پناہ گزین ہلاک یا لاپتہ ہوئے آئی او ایم کے مسنگ مائگرینٹ منصوبے سے لیا گیا ہے۔ یہ ان پناہ گزینوں کو شمار کرتا ہے جو اپنے ملک کی عالمی سرحد پر یا کسی عالمی مقام کی جانب ہجرت کے دوران ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔

بحیرۂ روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے پناہ گزینوں کو عموماً مردہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ آئی او ایم کے مطابق ہجرت کے عمل کے دوران مہاجرین کی صحیح تعداد جاننے کا عمل مشکل ہے اور اعدادوشمار اندازوں پر مبنی ہی ہوتے ہیں۔لاپتہ پناہ گزینوں کے منصوبے

اصطلاحات کے بارے میںپناہ گزین اور تارکینِ وطن کے الفاظ ان تمام افراد کے لیے استعمال کرتی ہے جو نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن قانونی لحاظ سے ان کا پناہ کے حصول کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ ان افراد میں شام جیسے جنگ زدہ ممالک سے نقل مکانی کرنے والے لوگ بھی ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں قبول ہونے کے واضح امکانات ہیں اور ایسے لوگ بھی جو روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے ملک سے نکلے ہیں اور جنھیں حکومتیں اقتصادی تارکینِ وطن کہتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close