بلاگ

2017ء: سیاسی بھونچال کا ایک سال

اسلام آباد: 2017ء ایک ہنگامہ خیز سال رہا جس کے دوران قوم نے کئی سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ پاناما کا ہنگامہ سارا سال جاری رہا جس کے نتیجے میں نواز شریف اگلے الیکشن سے آؤٹ ہوگئے اور ان کے بھائی شہباز شریف کےلیے وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار ہوگئی۔

پاکستان کے سیاسی میدان میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے درمیان سنسنی خیز مقابلہ ہوا جس میں سپریم کورٹ نے امپائر کا کردار ادا کیا۔ میچ کی پہلی اننگ میں عمران خان نے نواز شریف کو کلین بولڈ کردیا۔ امپائر کی انگلی اٹھی اور نواز شریف پوری کابینہ سمیت آؤٹ ہوگئے۔

 میچ کی دوسری اننگ میں نواز شریف کا وار خالی گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی عدالت میں دائر درخواست پر عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف ’ایل بی ڈبلیو‘ کی اپیل کی لیکن امپائر نے عمران خان کو ناٹ آؤٹ جبکہ جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔

تین میچز کی اس سیریز کا پہلا مقابلہ 2014 کے دھرنے میں ہوا تھا جس میں عمران خان نے غلط شاٹ کھیل کر اپنی پوزیشن کمزور کرلی اور نواز شریف انہیں شکست دینے میں بہ آسانی کامیاب رہے۔ اب نواز شریف کے میدان بدر ہونے کے نتیجے میں سیریز کا تیسرا اور آخری میچ 2018ء میں مسلم لیگ کے نئے کپتان شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ہوگا۔

پاناما کا ہنگامہ

پاناما لیکس میں انکشاف ہوا تھا کہ شریف خاندان کی آف شور کمپنیاں ہیں جن کے ذریعے انہوں نے اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا اور منی لانڈرنگ کی۔ 2017 کے پہلے 7 ماہ کے دوران سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف مقدمہ چلتا رہا جس کی کئی سماعتیں ہوئیں اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

پہلے 20 اپریل کو سپریم کورٹ کی 5 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا جس میں 2 ججز نے نواز شریف کو نااہل کرنے کی سفارش کی تاہم تین ججز نے مزید تفتیش کرانے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی چھان بین کےلیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے نواز شریف، ان کے بچے مریم، حسین اور حسین، داماد کیپٹن (ر) صفدر اور سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پیش ہوئے۔ بالآخر جے آئی ٹی نے تفتیش کے بعد شریف خاندان کے خلاف رپورٹ اور ثبوت عدالت میں جمع کرادیئے۔

سپریم کورٹ نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد تمام ثبوتوں کی روشنی میں 28 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کردیا جس کے نتیجے میں وہ عہدے سے فارغ ہوگئے۔ عدالت نے قومی احتساب بیورو کو شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز (مقدمات) درج کرنے کا حکم دیا۔ نیب نے عدالتی حکم کی روشنی میں نواز شریف، ان کی بیٹی مریم، بیٹوں حسن اور حسین، داماد کیپٹن (ر) صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن کے مقدمات درج کیے جن کی سماعتیں تاحال جاری ہیں اور نواز شریف، مریم، اور صفدر عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ تاہم حسن اور حسین نواز لندن میں موجود ہیں اور احتساب عدالت میں پیش نہ ہونے پر انہیں اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔ حسن اور حسین نواز برطانوی شہریت کے بھی حامل ہیں۔

مردم شماری

ملک میں 20 سال کے طویل عرصے بعد 2017 میں مردم شماری ہوئی۔ یہ مردم شماری 15 مارچ کو شروع ہوئی اور 25 مئی کو ختم ہوئی۔ ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ تک پہنچ گئی جس میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 64 لاکھ 50 ہزار اور خواتین کی آبادی 10 کروڑ 13 لاکھ 15 ہزار ہے۔ اس مردم شماری کے نتائج پر بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں اور بعض علاقوں خصوصاً کراچی کی آبادی کو کم کرکے دکھانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

کلثوم نواز کی بیماری

22 اگست کو شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ کلثوم نواز کو کینسر ہوگیا ہے۔ نواز شریف کی اہلیہ تاحال لندن کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ناقدین نے اس موقع پر انہیں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ 3 بار برسراقتدار رہنے کے باوجود وہ ملک میں ایک ایسا اسپتال نہیں بنواسکے جہاں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کرواسکیں۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کا الیکشن

نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں لاہور میں ان کی نشست این اے 120 خالی ہوگئی جس پر 17 ستمبر کو ضمنی الیکشن ہوا۔ سیاسی جوڑ توڑ اور ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئیں۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد دوسرے نمبر پر رہیں۔

’’مجھے کیوں نکالا‘‘

سال کا سب سے مشہور جملہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ رہا۔ نااہلی کے بعد میاں نواز شریف مختلف ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک ہی جملہ بار بار دہراتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ یہ جملہ زبان زد عام ہوگیا اور شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ایک محاورہ بن چکا ہے۔ ’’کیوں نکالا‘‘ کا سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا ہوا اور صارفین نت نئے لطیفوں سے بہت محظوظ ہوئے۔

نئی حکومت

نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوگئی۔ وزرات عظمیٰ کا قرعہ فال نواز شریف کے دیرینہ وفادار ساتھی شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا اور نئی کابینہ تشکیل دے گئی جس میں  چوہدری نثار کی چھٹی ہوگئی جو تاحال اپنی قیادت سے ناراض اور تنہا نظر آتے ہیں۔ یکم اگست کو شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

ٹرمپ کی نئی پالیسی میں پاکستان پر الزامات

22 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی پالیسی جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔ امریکا کے اس پالیسی بیان پر پاکستان میں سخت ردعمل آیا اور تمام سیاسی و عسکری قیادت نے یک زبان ہوکر اس کی مذمت کی۔

کراچی کا بدلتا سیاسی درجہ حرارت

8 نومبر کو کراچی کا سیاسی درجہ حرارت یک دم بڑھ گیا اور ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے سیاسی اتحاد بنانے کا اعلان کردیا جبکہ مصطفیٰ کمال نے اسے اتحاد کی بجائے دونوں جماعتوں کا انضمام قرار دیا۔ لیکن یہ رشتہ 24 گھنٹے بھی برقرار نہ رہ سکا اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاکر اس جبری اتحاد کو ختم کردیا۔ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال ایک دوسرے پر اسٹیلبلشمنٹ کے آلہ کار ہونے کا الزام لگاتے رہے۔

ختم نبوت(ﷺ) کے قانون میں ترمیم

پاناما لیکس کے فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی صدارت سے فارغ ہوگئے کیونکہ انتخابی قوانین کے تحت نااہل شخص پارٹی کا صدر بھی نہیں ہوسکتا۔ اس پابندی کو ختم کرنے کےلیے مسلم لیگ نے 2 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں الیکشن اصلاحات بل 2017 منظور کیا جس میں نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے پر عائد پابندی ختم کردی گئی۔ تاہم اس بل کی منظوری کی آڑ میں (ن) لیگ نے انتخابی امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے حلف نامے سے چھیڑ چھاڑ کی اور ختم نبوتﷺ سے متعلق الفاظ کو تبدیل کرکے قادیانیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔

یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے منظور ہوگیا۔ لیکن بات کب تک چھپی رہ سکتی تھی اور آخرکار کھل ہی گئی جس پر ملک بھر میں خوب ہنگامہ اور شورشرابا ہوا۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام کرکے مسلم لیگ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری جو اس کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

ملک بھر میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنے کے بعد (ن) لیگ نے ختم نبوتﷺ سے متعلق ترمیم واپس لے لی اور حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں بحال کردیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق (ن) لیگ کو اپنے اس اقدام کے اثرات اگلے الیکشن میں نظر آسکتے ہیں کیونکہ اس نے اپنے ایک بڑے ووٹ بینک کو خود اپنے ہاتھوں ختم کردیا جس کا خمیازہ اسے نشستوں میں کمی کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت نے شدید احتجاج کے باعث ترمیم کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کےلیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی لیکن تاحال ذمہ داروں کے نام سامنے نہیں آسکے۔

فیض آباد دھرنا

2017 کا اہم ترین واقعہ اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں مذہبی جماعت کا دھرنا رہا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف ایک تحریک چلی جو این اے 120 کے الیکشن میں ایک سیاسی جماعت تحریک لبیک کے روپ میں سامنے آئی۔

ختم نبوتﷺ ترمیم کرنے پر تحریک لبیک نے اسلام آباد میں 20 روز تک دھرنا دیا اور وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کی وجہ سے دارالحکومت کے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت دھرنا مظاہرین کے خلاف کارروائی سے بچنے کی کوشش کرتی رہی۔ یہ دھرنا حکومت کے گلے میں اٹکی ایسی ہڈی بن گیا جو اُگلی جائے نہ نگلی جائے۔

3 بار آپریشن کی ڈیڈلائن دے کر مؤخر کی گئی لیکن بالآخر 21 ویں روز 25 نومبر کو حکومت کے حکم دھرنا ختم کرنے کےلیے آپریشن شروع کردیا گیا۔ شدید خونریزی کے باوجود یہ آپریشن ناکام ہوگیا جبکہ بڑی تعداد میں مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ آپریشن کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

3 نومبر 2007 کے بعد ملکی تاریخ میں 10 سال کے دوران دوسری بار نومبر کے مہینے میں ہی تمام ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی گئیں اور سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگادی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد تھے اور انوشہ رحمان وزیر کے منصب پر فائز تھیں جب کہ دانیال عزیز بھی قومی ادارے کے سربراہ تھے۔ لیکن یہی تینوں چہرے اس بار مشرف کے کٹر حریف نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔ آرمی چیف کی مداخلت پر یہ نشریات بحال ہوئیں۔

اس آپریشن سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی۔ آخرکار فوج بیچ میں آئی اور اس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں دھرنا ختم ہوگیا جب کہ وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہوکر گھر جانا پڑا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ

دھرنا کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فوج سے متعلق سخت ریمارکس سے ملکی حالات میں بھونچال آگیا۔ ہائی کورٹ نے حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان فوج کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا۔

عمران خان/ جہانگیر ترین کیس

15 دسمبر کو سپریم کورٹ نے سال کے دوسرے اہم ترین مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو اہل اور جہانگیرترین کو نااہل قرار دیا۔ مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر کی قربانی دے کر اپنے لاڈلے کو بچالیا۔

حدیبیہ ملز کیس

15 دسمبر ہی کو سپریم کورٹ نے مشہور حدیبیہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے کیس دوبارہ کھولنے کی نیب اپیل مسترد کردی جس کے نتیجے میں حدیبیہ کا باب ہمیشہ کےلیے بند ہوگیا۔ ایک مشہور صحافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ عدلیہ نے 2018 کے الیکشن کا اسٹیج ’’شہباز بمقابلہ عمران‘‘ تیار کردیا۔ حدیبیہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا جس میں شہباز شریف مرکزی ملزم تھے اور کیس ختم ہونے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ چند روز بعد 21 دسمبر کو نواز شریف نے اعلان کردیا کہ مسلم لیگ (ن) کے اگلے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ

طویل انتظار کے بعد 5 دسمبر کو پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ بھی جاری کردی تاہم یہ رپورٹ بظاہر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی امیدوں پر پوری نہیں اتری، اگرچہ انہوں نے اس بات کا اظہار نہیں کیا اور شہباز شریف سمیت پوری حکومتِ پنجاب کو مستعفی ہونے کے لیے 31 دسمبر تک کی مہلت دی۔

2014 میں پیش آنے والے اس واقعے میں پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ حکومت نے تحقیقات کےلیے جسٹس باقر نجفی کا ایک رکنی کمیشن بنایا جس نے رپورٹ پیش کی۔

آرمی چیف کی سینیٹ کو بریفنگ

19 دسمبر کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف نے سینیٹ کو بریفنگ دی۔ اس بریفنگ میں آرمی چیف نے جمہوریت کو خطرہ نہ ہونے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ دھرنے میں فوج کا ثابت ہوا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔

اسحاق ڈار

سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا۔ اسحاق ڈار متعدد بار احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ تاہم وہ مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں شرکت کےلیے لندن گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ احتساب عدالت میں ان کے وکیل نے درخواست جمع کرائی جس کے مطابق اسحاق ڈار شدید علیل اور زیرعلاج ہیں اس لیے وطن واپس نہیں آسکتے۔ مسلسل غیر حاضری پر عدالت نے 11 دسمبر کو انہیں اشتہاری قرار دے دیا۔

بین الاقوامی کھیلوں کی بحالی

2017 میں 8 سال بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوگئی۔ سب سے پہلے 5 مارچ کو پاکستان سپر لیگ کا فائنل سخت حفاظتی انتظامات میں لاہور میں ہوا جس میں متعدد غیرملکی کھلاڑیوں نے شرکت کی اور پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دے دی۔ پھر ستمبر میں ورلڈ الیون پاکستان آئی اور تین میچز کی سیریز پاکستان نے 1-2 سے جیت لی۔ ورلڈ الیون میں متعدد مشہور غیرملکی کھلاڑی شامل تھے۔ اس کے بعد 29 اکتوبر کو ٹی 20 کھیلنے سری لنکا کی ٹیم لاہور پہنچی۔ اس میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو شکست دے دی لیکن سری لنکن کھلاڑیوں نے پوری پاکستانی قوم کے دل جیت لیے۔

سعودی فوجی اتحاد

6 جنوری کو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یہ اتحاد 35 ممالک پر مشتمل ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے اہل خانہ کی ملاقات

پاکستان سے اجازت ملنے پر 25 دسمبر کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ اسلام آباد پہنچے جہاں دفتر خارجہ میں انہوں نے ملاقات کی۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس ملاقات کی اجازت دی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016ء میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا اور اس نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا اعتراف کیا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close