بلاگ

صادق اور امین

میں چاہتا ہوں آپ اپنے ہوش و حواس کی حفاظت کریں۔ صبح، دوپہر، شام، رات  آدھی رات اور پھر صبح سویرے آپ جب بھی ٹیلی وژن آن کرتے ہیں، آپ زرداری، نواز شریف اور عمران خان کے قصے،کہانیاں سنتے ہیں۔ ان کی املاک اور ہوش ربا دولت کے ذخائر کے قصے سنتے ہیں۔ ان کی آف شور اور آن شور کمپنیوں کے بارے میں تجزیے سنتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ اور کچھ نہیں سنتے۔ دنیا میں چونکہ کچھ نہیں ہورہا اس لیے ہمارے پچاسیوں ٹیلی وژن چینل آپ کو دنیا کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ وہ آپ کو صرف زرداریوں، شریفوں اور نیازیوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ آپ کے علم اور آگاہی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

اگر ہمارے پاس ٹیلی وژن چینلوں کی بھرمار نہیں ہوتی تو پھر ہمارا شمار دنیا کی ذہنی طور پر پس ماندہ قوموں میں ہوتا۔ اب ہمارا شمار دنیا کی ذہین ترین اقوام میں ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں ایسی ذہین قوم کا ایک ایک فرد ہوش و حواس میں رہے۔ کوئی حرج نہیں ہے اگر آپ کسی روز زرداریوں، شریفوں اور نیازیوں کے قصے نہ سنیں۔ اس سے آپ کی لاجواب صحت پر کسی قسم کا برا اثر نہیں پڑے گا۔ ویسے بھی ستر برسوں سے ہم نے اس قدر برے اثرات برداشت کیے ہیں کہ اب ہم کسی قسم کے برے اثر کو خاطر میں نہیں لاتے۔

آج میں آپ کو اپنے ہم عمر، ہم عصر، ہم سفر اور ہم نفس دوست کی باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ اپنے دوست کے قصے کہانیاں سناتے ہوئے میں اس قدر محو ہو جاتا ہوں جیسے وہ میرے اپنے قصے کہانیاں ہوں۔

سننے والے اکثر پوچھتے ہیں: بالم بھائی، کیا یہ آپ کی اپنی کہانی ہے۔ آپ کی اپنی داستان ہے؟ اس لیے میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جو کہانی میں آپ کو سنانے جارہا ہوں، میری اپنی کہانی نہیں ہے۔

یہ میرے ہم عمر، ہم عصر، ہم نفس دوست کی کہانی ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ میرا دوست میرے وجود میں موجود ہے۔ وہ آپ کو اپنی کہانی سنانے جارہا ہے۔ وہ جا کہیں نہیں رہا۔ یہیں بیٹھ کر وہ آپ کو اپنی کہانی، بلکہ اپنے چھوٹے چھوٹے واقعات سنائےگا۔ آپ کو لگے گا جیسے میں آپ کو اپنی کہانی سنا رہا ہوں۔

ایک روز کرخت قسم کے کچھ افسران میرے ہمسائے کے ہاں آئے۔ اُس وقت میں اپنے ہمسائے کے ساتھ شطرنج کھیل رہا تھا۔ ہم وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک افسر کے گھنی مونچھیں تھیں اور اس کی ناک پھولی ہوئی تھی۔ وہ بڑا ہی بدنما افسر تھا اور دور سے بھینسا لگ رہا تھا۔ اس نے پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز میں پوچھا۔ ‘تم دونوں میں محمد صادق کون ہے؟’

‘میں صادق ہوں۔ میرا مطلب ہے کہ میں محمد صادق ہوں’۔ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے ہمسائے نے کہا۔ ‘اور یہ امین ہے۔ میرا مطلب ہے کہ محمد امین ہے۔ اس کا جنم شکار پور میں ہوا تھا۔ تب پاکستان نہیں بنا تھا’۔

بدنما افسر نے ادھر ادھر دیکھا۔ گھر کے چپے چپے پر سجائے ہوئے نوادرات کا جائزہ لیا۔ مجھے لگا وہ پرانے دور کا ڈائناسور تھا اور اس جنم پر آدمی بن کر آیا تھا۔ مگر پھر بھی وہ آدمی کم اور ڈائنا سار زیادہ لگ رہا تھا۔ ڈائنا سار نے صادق سے پوچھا۔ ‘یہ نوادرات تمہارے اپنے ہیں؟’

میں نے ڈائنا سار سے پوچھا۔ ‘کیا کسی نے نوادرات چوری ہوجانے کی رپورٹ لکھوائی ہے؟’

ڈائنا سار نے گھور کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ ‘تم کیوں بیچ میں بولتے ہو مسٹر امین ! ہم صادق سے بات کررہے ہیں۔’

میں نے کہا، ‘صادق میرا بچپن کا دوست ہے۔ یہ نوادرات صادق نے بچپن سے جمع کیے ہیں، خریدے ہیں۔’

ڈائنا سار نے مجھے ڈانتے ہوئے کہا، ‘تم چپ رہو امین صاحب۔ صادق کو بولنے دو۔’

ڈائنا سار اور اس کے مشٹنڈے ساتھیوں نے صادق کو گھیرے میں لے کر اس پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ سوالات ایک ہی نوعیت کے تھے۔ تم یعنی صادق اس قدر خوش حال کیوں ہو؟ تمہارا ذریعہ آمدنی کیا ہے؟

صادق کے جوابات بھی ایک ہی نوعیت کے تھے۔ کیا میں نے کہیں ڈاکہ ڈالا ہے؟ بینک لوٹا ہے؟ بینک کے قرضے معاف کروائے ہیں؟ میں نے مالیاتی امور میں گھپلے کیے ہیں؟ دھوکہ دہی کی ہے؟ اگر نہیں تو پھر میں آپ کو اپنے ذرائع آمدنی کے بارے میں کیوں بتاؤں؟

مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ڈائنا سار سے کہا۔ ‘میں صادق کو بچپن سے جانتا ہوں۔ یہ جھگڑا نہیں کرتا، ہیرا پھیری نہیں کرتا۔ میں امین، صادق کا لنگوٹیا دوست خدا کو حاضر و ناظر جان کر گواہی دیتا ہوں کہ صادق بے ایمان نہیں ہے۔’

ڈائنا سار نے چیخ کر کہا ۔ ‘ہمیں تمہاری گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ صادق کی بلاوجہ خوش حالی صادق کے خلاف سب سے بڑی گواہی ہے۔ جب تک صادق نہیں بتاتا کہ اس کی خوشحالی کے ذرائع کیا ہیں ، قانون کی نظروں میں صادق مجرم ہے۔’

صادق نے کہا ۔ ‘آپ جب تک یہ ثابت نہیں کرتےکہ میرے ذرائع آمدنی غیر قانونی ہیں، آپ تب تک مجھ سے کسی قسم کا استفسار نہیں کرسکتے۔’

میں نے کہا، ‘آپ اس وقت تک کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے، جب تک اس کے خلاف آپ کے پاس ٹھوس شواہد نہیں ہوتے۔’

اچانک ڈائنا سار نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ایک دبلے پتلے اور مریل ساتھی نے میری طرف دیکھتے ہوئے ڈائنا سار کے کان میں کچھ کہا۔ ڈائنا سار کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ڈائنا سار نے پوچھا، ‘تم اس قدر میلے کچیلے گندے اور بدبودار کیوں ہو مسٹر امین، بھکاری ہو؟’

کھسیانہ ہوتے ہوئے میں نے کہا۔ ‘میں سادگی پسند ہوں۔’

ڈائنا سار کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے کہا، ‘مگر تم دفتر تو تھری پیس سوٹ پہن کر اور اعلیٰ ٹائی باندھ کر جاتے ہو!’

میں نے چونک کر ڈائنا سار کی طرف دیکھا۔ ڈائناسور نے کہا۔ ‘تمہارے دفتر کے کلرک بھی کروڑ پتی ہیں۔ تم تو 22 گریڈ کے افسر ہو۔ اتنا پیسہ تم کہاں سے خرچ کردیتےہو؟’

صادق نے کہا، ‘امین اپنا پیسہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے۔ اپنے لیے کچھ نہیں رکھتا ، اس لیے بھکاری لگتا ہے۔’

ڈائنا سار نے پوچھا۔ ‘پلاؤ اور زردہ کی روزانہ کتنی دیگیں دھرنوں میں بھیجتے ہو؟’

میں نے کہا، ‘ڈائنا سار بھائی، آپ تو صادق سے پوچھ گچھ کرنے آئے تھے، پھر آپ مجھ امین کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔’

‘چلو امین سے پوچھ گچھ بند کرتے ہیں۔’  ڈائنا سار نے کہا۔ ‘بس اتنا بتادو کہ کس ٹیلی وژن چینل کے میک اپ آرٹسٹ سے داڑھی لگوا کر تم دھرنوں میں جاکر بیٹھتے ہو اور دھواں دھار تقریریں کرتے ہو؟ میک اپ آرٹسٹ کا نام کیا ہے؟’

میرے ہم عصر، میرے ہم سفر، میرے ہم نفس نے مجھے اس سے آگے کچھ نہیں بتایا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close