بلاگ

نصاب میں پاکستانیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت

تزئین حسن کے قلم سے
مشرق وسطیٰ میں رہائش اور ہوم اسکولنگ کے دوران اپنے بچوں کی کتابیں پوری پوری پڑھنا میرا دلچسپ مشغلہ رہا۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا اور خوشی ہوتی کہ یہ بچے خوش قسمت ہیں جنہیں اپنے بچپن میں ہمارے مقابلے میں بہت بہتر دینی اور دنیاوی نصاب میسر ہیں۔ بچے کوئی دو سو کلو میٹر دور تبوک شہر کے ایک انڈین اسکول میں رجسٹرڈ تھے اور اسکول سسٹم کے تحت ان کا ممتحن سال میں ایک مرتبہ آکر امتحان لیتا مگر بچوں کو پڑھانا اور نصاب کی تکمیل میری ذمہ داری تھی۔ غالباً 11-2010 کی بات ہے۔ بچوں کے انگریزی کے انڈین نصاب میں بچندری پال نامی خاتون کے بارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بھارت کی پہلی خاتون تھیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچیں۔ بچوں کےلیے لکھے گئے اس مختصر سے مضمون میں مصنف نے کوہ پیما خاتون کی زندگی اور مشکلات سے لڑجانے والی فطرت کو بہت خوبصورتی سے کہانی کی صورت سمویا ہوا تھا۔

بھارتی نصاب پڑھاتے ہوئے میری کوشش ہوتی کہ جہاں ایسے موضوعات سامنے آئیں جن سے بچے کو اس کی قومی شناخت دی جارہی ہو اور اس پر فخر کرنا سکھایا جارہا ہو، وہاں میں بچوں کو پاکستانی کی حیثیت سے شناخت بھی موضوع کے حوالے سے دینے کی کوشش کروں۔

2011 تک کسی پاکستانی خاتون نے ماؤنٹ ایورسٹ سر نہیں کیا تھا مگر میرے علم میں تھا کہ مردوں میں یہ کام کوئی کرچکا ہے۔ مگر نصاب میں تو دور کی بات، نذیر صابر یا کسی دوسرے پاکستانی کوہ پیما کے بارے میں اخبارات میں بھی ایک آدھ مضمون ہی مشکل سے خانہ پری کے طور پر ہی شائع ہوا ہوگا۔ الیکٹرونک میڈیا کے کسی پروگرام کا کم ازکم مجھے علم نہیں۔ ہمارے مارننگ شوز کے اینکرز کو بھی شادی بیاہ کی رسموں اور ہانڈیوں سے فرصت نہیں۔ عام طور سے وہ صرف اداکاروں اور کرکٹرز ہی کو قوم کےلیے سلیبریٹیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ دن گئے جب مستنصر حسین تارز سے مارننگ شو کروایا جاتا تھا۔
قصہ مختصر میں نے گوگل کیا اور فیس بک پر نذیر صابر صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کمال محبت سے مجھے اپنے بارے میں اور پاکستانی کوہ پیماؤں کے بارے میں ایک غیر معروف اخبار کا لنک بھیجا جس کی مدد سے میں نے بچوں کو بتایا کہ پاکستان میں بھی ایسے کوہ پیما پائے جاتے ہیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں سے قوم کےلیے اور دنیا کےلیے کوئی مثبت کام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں پاکستانی کی حیثیت سے اپنی شناخت پر فخر کرنا سکھانا ہوگا۔

ایڈیٹر کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے یا کسی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کا اظہار مناسب نہیں۔

دنیا بھر میں نصاب اس کام کو انجام دیتا ہے اور میڈیا اسے سپورٹ کرتا ہے۔ آپ ذرا ہالی وڈ کی فلموں پر نظر دوڑائیے۔ معرکہ کہیں بھی ہو، آپ کو ہر جگہ امریکی ہیرو نظر آئیں گے؛ خصوصاً جب ایک سے زیادہ قومیں فلم کا موضوع ہوں، چاہے وہ دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ کی بارے میں بننے والی فلم ’’برج آن دی ریور کوائی‘‘ ہی کیوں نہ ہو جس میں تاریخی طور پر امریکیوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہی حال بالی وڈ کا ہے کہ ان کے فوجیوں سے زیادہ بہادر کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر پاکستان میں پاکستانیوں کے کسی حقیقی کارنامے کا نام بھی لیں تو ہمارا روشن خیال طبقہ اسے پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کردے گا۔ حسن نثار جیسے دانشور اسے قوم کو دھوکے میں رکھنا گردانیں گے۔

پاکستانی نصاب اور میڈیا، پاکستانی جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں اہم معلومات نہیں دیتے جن سے بچہ ایک قوم کے طور پر اپنی شناخت محسوس کرسکے۔

انڈین کورس میں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اس مقصد کی طرف پیش قدمی نظر آئی۔ چوتھی جماعت کے انگریزی کے نصاب میں کارگل کی جنگ میں کام آنے والے ایک سپاہی کے بارے میں پڑھ کر تعجب ہوا کہ بھارتی کورس کس قدرتازہ ترین موضوعات کے ذریعے اپنی قوم کی شناخت بنارہا ہے۔ آج یہ بچے جب ایک سپاہی کو ہیرو کے طور پر دیکھیں گے تو کل ان کے دل میں بھی وطن کےلیے کچھ کرنے کی خواہش ہوگی۔

میں نے اسی زمانے میں ایک انڈین چینل پر ایک ٹیلی فلم کارگل میں کام آنے والے سپاہی کے والدین کے بارے میں دیکھی۔ یاد رہے کارگل کے ایڈونچر کو اس وقت کم ہی عرصہ گزرا تھا۔ چلیے کارگل نہ سہی، آپ زلزلے کے امدادی کاموں کے دوران شہید ہونے والے کسی فوجی یا سویلین پرکوئی ڈاکیومنٹری بنا لیجیے۔

ایک دور میں پی ٹی وی پر ’’الفا براوو چارلی‘‘ اور ’’دن‘‘ جیسے سیریل آتے تھے۔ اب تو پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کے باوجود ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ قوم پاکستان کے فائدے کو اپنا فائدہ سمجھنا شروع کردے۔

پچھلے سال پاکستان کے ایک انتہائی مؤقر انگریزی اخبار میں کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے والی ایک ٹیم کے بارے میں مضمون پڑھ کر بہت افسوس بلکہ صدمہ ہوا کہ ایڈیٹر کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے؛ یا کسی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کا اظہارمناسب نہیں سمجھا۔ مضمون کے آغاز میں کے ٹوکا تعارف محض پاکستان کے سب سے بلند پہاڑ (K2 — the highest mountain in Pakistan) کے طور پر کروا کرعزت افزائی کی گئی تھی۔

ایسی خبریں یا مضامین جب پاکستانی میڈیا میں نظر آتے ہیں تو سچی بات ہے دل بہت بے چین ہوتا ہے کہ پاکستانی نصاب اور میڈیا قوم کے بچوں اور بڑوں کو پاکستانی سر زمین اور شناخت پر فخر کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ پاکستانی الیکٹرونک نیوز میڈیا دنیا کا سرگرم ترین میڈیا ہے مگر پاکستانی سر زمین، معاشرے اور ثقافت کے مثبت پہلو سامنے لانے میں اس کا کیا کردار ہے؟

اس بات کی تو امید ہی فضول ہے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ، پڑھے لکھے بڑوں کو بھی یہ حقیقت معلوم ہو کہ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی حد تک استثنیٰ ہے اور کچھ معلومات موجود ہیں لیکن نصاب اور میڈیا کا اس میں شاید ہی کوئی کردار ہو۔

اس حقیقت کا بھی کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ دنیا کے بلند ترین تین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش، تینوں قراقرم ہائی وے پر جگلوٹ کے مقام پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ قراقرم ہائی وے پر، جسے پاکستان میں شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے، ایک سبق ہمارے بچپن میں اردو کے نصاب کا حصہ تھا مگر بہت سی سادہ حقیقتیں نظر سے اوجھل تھیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر بھارت میں ایسی ایک بھی چوٹی ہوتی تو کیا بھارت کے بچوں سے یہ حقیقت اس طرح اوجھل رکھی جاتی؟

یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ نوجوان پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہم ان سے پاکستان کی ترقی کےلیے کوئی مثبت کردار ادا کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں پاکستانیت کا شعور دینا ہوگا۔ انہیں اس سر زمین پر فخر کرنا سکھانا ہوگا۔ پاکستان سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کےلیے بھی پاکستانی نوجوان کو مثبت مقاصد اور سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے نصاب اور میڈیا، دونوں کا کردار اہم ہے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے میں بھی نصاب کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار ہونا چاہیے۔ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اس طرح کرنا کہ نوجوان ایک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت کا ادراک کریں، وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close