زینب بیٹا، معاف کرنا، کیونکہ انصاف تو تمہیں بھی نہیں ملے گا!
بلاگ: شوذب عسکری
میرے ذہن پر ہتھوڑے برس رہے ہیں۔ سانس پھولی ہوئی ہے اور آہیں نکل رہی ہیں۔ بے شک یہ کانپتی ہوئی انگلیاں زینب کے دُکھ اور درد سے پھوٹتی ہوئی کیفیت کو رقم کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔ میں بلاشبہ ردِعمل کا شکار ہوکر لکھ رہا ہوں۔ مجھے اپنی اِس شدید جذباتی کیفیت میں کچھ بھی نہیں لکھنا چاہیے بلکہ ٹھنڈا پانی پی کر کچھ دیر کے لیے کوئی اور مصروفیت ڈھونڈنی چاہیے کیونکہ میرے اپنے اخذ شدہ سبق کے مطابق میں اِس لمحے جو کچھ بھی لکھوں گا وہ محض جذباتی ہیجان ہے اِس کا علم و دانش میں کوئی کردار نہیں۔
مگر میں کیا کروں؟ روؤں؟ محض رونے سے کیا ہوسکتا ہے؟ غم میں، دُکھ میں، حسرت میں، شرمندگی میں، بخشش کے لیے اور بے بسی کی وجہ سے رونا، کیا یہ سب زینب کے گھر والے اور اُس کے عزیز و اقارب نہیں کرچکے ہوں گے؟ وہ تو اللہ کے گھر میں تھے، اور وہاں تو بخشش کا رونا بھی رویا جاچکا ہوگا۔
میں نے اِس لمحے کم از کم یہ طے کیا ہے کہ میں ابھی آنسوؤں سے تو نہیں روؤں گا۔ مجھے اِس لمحے وہ ساری جذباتی بھڑاس لکھنی ہے جس کی رفتار کے سامنے انگلیاں بار بار شکست کھا رہی ہیں۔
جب بھی قصور کا ذکر آتا ہے تو مجھے قصور میں ہوئے بچوں سے جنسی زیادتی کے مسلسل واقعات کی ویڈیوز بنانے کا واقعہ یاد آتا ہے مگر ایسا کچھ یاد نہیں آتا کہ کبھی یہ سنا ہو یا پڑھا ہو کہ مجرم گرفتار ہوئے ہیں اور اُنہیں سزا سنا دی گئی ہے۔ مجھے اُس واقعے کے پس منظر میں وزیرِ قانون پنجاب کا ایک اخباری میڈیا بیان یاد آرہا ہے جسے لکھنے کا دل نہیں چاہتا کہ دل پہلے ہی بہت جلا ہوا ہے اور اِسے مزید کیا جلاؤں۔
میں اپنے شعور پر دستک دوں کہ میں نے ریپ نامی ظلم کا نام کب سنا تھا اور ایسی کسی شے کو کب پڑھا تھا تو مجھے مختاراں مائی یاد آتی ہے۔ میں ابھی گوگل سے اُس کے مقدمے کا احوال نہیں جاننا چاہتا۔ میری یاداشت اور فہم کے مطابق اُس مقدمے کے مجرموں کو سزا نہیں ملی تھی۔
میں اپنے ذہن میں کچھ اور جھانکوں تو مجھے سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی ایک ویڈیو یاد آتی ہے جس میں وہ مدد کے لئے چلاّ رہے ہیں، مگر ایک بپھرا ہوا ہجوم اُنہیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹے جا رہا ہے۔ جس لمحے اُن کی جان نکل رہی تھی تو ایک ویڈیو میں اُن کے بدن کی آخری کپکپاہٹ صاف دکھائی دی تھی۔ میں اِس کیس کو بھی گوگل کے ذریعے تلاش نہیں کروں گا، محض اپنی یاداشت سے پوچھوں گا کہ کیا کوئی ایسی خبر پڑھی یا سنی جو یاد رہ گئی ہو کہ سیالکوٹ میں ہوئے دو بھائیوں کے اندوہناک قتل کا فیصلہ آگیا۔ قاتلوں کو سزا دے دی گئی۔ ایسی کوئی بریکنگ نیوز یا شہ سرخی میری آنکھوں اور کانوں کے رستے میری یاداشت کا حصہ نہیں بنی۔
میں اپنے ذہن پر اور دستک دیئے جاتا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے کراچی کا سرفراز شاہ ہے۔ جس کے گرد رینجرز کی وردی پہنے چند جوان بندوقیں تانیں کھڑے ہیں اور لڑکا ہاتھ باندھے رکوع میں جھکا ہوا ہے۔ گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔ وہ گرجاتا ہے۔ کان لگاؤ تو آواز سنائی دیتی ہے۔
’اللہ کے لئے مجھے ہسپتال لے چلو۔‘
لیکن کیا اُس پر فائرنگ کرنے والوں کو سزا مل گئی، میری یادداشت کے مطابق نہیں۔
میں سوچ رہا ہوں تو مجھے ریمنڈ ڈیوس یاد آرہا ہے۔ مجھے اُس سارے واقعے سے جو کچھ یاد ہے وہ یہ کہ ریمنڈ دیت کا سہارا لے کر رہا ہوا اور واپس اپنے وطن پہنچ گیا۔
مجھے شاہ رخ جتوئی فوری طور پر یاد آیا ہے۔ ایسا ہی کوئی معاملہ یہاں بھی ہوا ہے۔
میں ایسے تمام ہی مقدموں کا احوال گوگل نہیں کرنا چاہتا۔ میں محض اپنی یاداشت سے پوچھ رہا ہوں اور خامشی سے سوچے جارہا ہوں۔ میری عمر 30 سال سے زائد ہوچکی ہے۔ پچھلے 20 سال کے اخباری مطالعے اور 15 سال کے خبرناموں کو سننے کی مشقت کے بعد میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں ایک ایسا بھلکڑ اور متعصب فرد بن گیا ہوں کہ مجھے ظلم کے واقعات پر انصاف مل جانے کا ایک بھی واقعہ یاد نہیں آرہا۔ مجھے آج بھی محض جرم، ظلم اور دُکھ درد یاد آرہے ہیں۔ میں نے آج بھی یہ درد لکھتے ہوئے اپنی یاداشت اور انگلیوں کو اُن تمام واقعات کا ذکر کرنے سے روکے رکھا ہے جن کا ذکر کرکے میں اپنی ذات کے تحفظ کو یقینی طور پر داؤ پر لگاؤں گا۔
دیکھئے ناں کہ بعض واقعات میں آپ متاثرہ شخص محض اپنے نصیبوں کی سیاہی کے بل بوتے پر بنتے ہیں اور بعض معاملات میں آپ اپنے نصیبوں میں سیاہی خود اپنی ہاتھ سے لکھی تحریر کے سبب ڈالتے ہیں۔ میں نہ تو اتنا بہادر ہوں کہ ایسا کچھ لکھنے کی جسارت کروں اور نہ ہی بے وقوف کہ بڑھاپے میں والدین کو تھانے کچہری اور میڈیا چینلز کے دھکے لگوانا چاہوں گا۔ وہ تو شائد میری تصویر کا بینر ہاتھ میں اُٹھائے کوئی لمبی واک بھی نہیں کرسکتے جس پر ’جسٹس فار می‘ یا ’فائنڈ می‘ لکھا ہوا ہو۔
میں تو فقط اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کیا پچھلے 15 سالوں میں ہوئے ریپ، جنسی زیادتی اور غیرت پر ہوئے قتل وغیرہ جیسے کسی واقعے میں کوئی مجرم سزا پا سکا جو اب ہم معصوم زینب پر ہوئے ظلم پر ’انصاف‘، ’انصاف‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں؟
ابھی مجھے، میرے دوست کا میسج موصول ہوا ہے۔ اُس کے لفظوں میں بین سنائی دے رہا ہے آپ بھی دیکھ لیجئے۔ میں ذرا واش روم میں جاکر رو لوں کہ میرا جی لکھ لکھ کر بھی ہلکا نہیں ہو رہا۔
’زینب کے لئے انصاف؟ کیسا انصاف اور کون سا انصاف؟ اُس کے لبوں سے نکلتی ’ہائے امّی‘ کی آخری پکار یا اُس کے حلق میں دب جانے والی سسکیوں یا اُس کی آنکھ میں پتھر ہوتا سوال (جو نجانے کس ہستی سے کیا گیا تھا) کا مداوا کرسکتا ہے؟ یا ایسا کون سا انصاف ہے جو اُس کے ماں باپ کو صرف ایک بار معصوم لہجے اور چہکتی آواز میں ’ماما پاپا‘ کی آواز سنا سکتا ہے۔ تلخ، مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ یہ سب پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار۔ میں اِس معاشرے پر لعنت بھیجنے کا بھی روادار نہیں۔ میں تو صرف اپنے چند دوستوں سے مخاطب ہوں جو میری طرح زندگی کے اِس جہنم میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ گلے لگ جاو یار۔ مجھے تمہیں ایک بار پھر سے پرسہ دینا ہے۔ اگر ہوسکے تو دور ویرانے میں نکل کر جتنا اونچا چیخ سکتے ہو چیخ لو۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو واش روم جاؤ اور خوب سارا رولو اور چہرا دھو کر نئے زخم کی اُمید میں باہر چلے آؤ۔ بخدا تم سب بہت یاد آتے ہو۔‘