افسوس۔۔ ہم کسی گنتی میں نہ رہے۔۔۔
تحریر: فیاض راجہ
نیشنل پریس کلب انتخابات 2018 کی گنتی 13 جنوری کی رات 11 بجے شروع ہوئی۔ آزاد پینل اور جرنلسٹ پینل کی طرف سے 20 بیس ارکان پر مشتمل ٹیم نے 20 میزوں پر 100 سو بیلٹ پیپرز گننے کا فریضہ سرانجام دیا۔ نیشنل پریس کلب انتخابات میں انتخابی کمیٹی کے مطابق 2009 ووٹرز نے ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کیا۔ 19 گنتی ٹیموں نے 1900 بیلٹ پیپرز جبکہ 20 ویں گنتی ٹیم نے 109 بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال کی۔ یہ سارا عمل کچھ ہوں سمجھ لیجئے کہ فیاض راجہ اور اصغر چوہدری پر مشتمل ایک گنتی ٹیم، مطیع اللہ جان اور حمید لنگراہ پر مشتمل دوسری گنتی ٹیم اور پھر اسی طرح 20 گنتی ٹیمیں جن میں ٹیم کا ایک رکن بیلٹ پیپر کو پڑھتا جب کہ دوسرا انتخابی نتائج فارم پر ووٹ کا اندراج کرتا تھا۔
20 ٹیموں کے چالیس ارکان نے گنتی سے پہلے حلف لیا کہ سارا عمل ایمانداری سے سرانجام دینگے۔آزاد پینل اور جرنلسٹ پینل کے 40 گنتی ارکان خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے پوری جانفشانی اور ایمانداری سے یہ سارا عمل سرانجام دیا۔ میرے اور اصغر چوہدری صاحب پر مشتمل ٹیبل نمبر 13 کی گنتی ٹیم نے اپنے حصے کا کام سب سے پہلے مکمل کیا جس کی بڑی وجہ باہمی اعتماد تھا۔ یہی صورتحال تقریبا تمام ٹیبلز پر رہی جہاں ہر دو ارکان نے شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ عمل سرانجام دیا۔ اور اپنی اپنی میز کے نتائج الیکشن کمیٹی کے حوالے کئے۔
20 نتائج ٹیموں کی جانب سے پہلا رزلٹ الیکشن کمیٹی کے حوالے 2 بج کر 7 منٹ پر کیا گیا۔ اسی طرح باقی 19 گنتی ٹیموں نے سوا دو بجے سے پونے تین بجے کے درمیان اپنے اپنے نتائج الیکشن کمیٹی کے حوالے کئے۔ گنتی کے دوران میری اور اصغر چوہدری صاحب کی متفقہ رائے تھی کہ ماحول بدل گیا یے اور ووٹرز نے اس بار انتخابات میں دونوں پینلز کو بکھرا ہو مینڈیٹ دیا ہے اور کم وبیش یہی رائے ہمارے نزدیکی میزوں پر بھی تھی۔ ہمارے میز پر شکیل قرار اور شکیل انجم صاحب کی اپنے مخالفین پر واضح برتری تھی جبکہ آزاد پینل کی نوشین یوسف صاحبہ سمیت، مشال بخاری اور سعیدہ راجہ بھی آگے تھیں۔ اسی طرح ہمارے نزدیکی تین میزوں میں سے دو پر شکیل قرار کی بہتر لیڈ جبکہ ایک پر کلوز مقابلہ تھا۔
گورننگ باڈی کی گنتی سے قبل اصغر چوہدری صاحب اور میں نے کچھ وقفہ کیا۔ چوہدری صاحب نے سگریٹ بریک کی تو میں نے اس دوران گنتی ٹیموں کا دورہ کیا اور تمام 20 میزوں سے جرنلسٹ پینل اور آزاد پینل کی گنتی ٹیموں کے ارکان سے صدارت کی نشست کے نتائج معلوم کیئے اور دو دفعہ کی اس پریکٹس کے نتائج اپنے پاس نوٹ کئے تو معلوم پڑا کہ شکیل قرار صاحب واضح برتری سے نہیں جیت رہے، انکی لیڈ کم ہے اور بعض میزوں کی گنتی پر بڑا سخت مقابلہ ہوا ہے۔
میری اس پریکٹس کی گواہی جرنلسٹ پینل کے دوست اور میرے قابل احترام بھائی حمید لنگراہ اور دیگر دوست بھی دینگے کہ میں نے ہر میز پر جا کر دونوں پینل کے ارکان سے نتائج معلوم کئے۔ 20 کاونٹنگ ٹیبلز سے حاصل کئے گئے نتائج کی روشنی میں میں شکیل قرار صاحب نے گیارہ ٹیبلز پر کامیابی حاصل کی جہاں ان کی جیت کا کل مارجن 155 ووٹ تھا جبکہ طارق چوہدری صاحب نے نو ٹیبلز پر کامیابی حاصل کی جہاں ان کی جیت کا مارجن 149 ووٹ تھا۔ کاغذ پر ووٹ لکھ کر یہ جمع تفریق کی پریکٹس میں نے تین دفعہ کی جس کے نتیجے کے مطابق شکیل قرار صاحب صدر پریس کلب کی نشست 6 ووٹوں سے جیت چکے تھے۔
میں نے یہ نتائج وہاں موجود شکیل قرار صاحب، شہر یار خان صاحب اور مطیع اللہ جان صاحب سے بھی شیئر کئے۔ اس سارے عمل کے دوران طارق چوہدری صاحب، حمید لنگراہ صاحب اور جرنلسٹ پینل کے دیگر دوست بھی موجود تھے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جرنلسٹ پینل اور آزاد پینل کے ارکان گنتی ٹیموں نے انتہائی ایمانداری، محنت اور لگن سے گنتی کا عمل مکمل کیا اور ان سے حاصل کئے گئے نتائج کی روشنی میں میری کی گئی گنتی کے مطابق شکیل قرار صاحب 6 ووٹوں کی لیڈ لئے ہوئے تھے۔ الیکشن کمیٹی کی جانب سے نتائج کے اعلان کے دوران گورننگ باڈی اور پھر ایگزیکٹو باڈی دونوں میں پہلے جیتے ہوئے اور پھر ہارے ہوئے امیدوار کا اعلان کیا جاتا رہا۔
ناصر زیدی صاحب نے سیکرٹری خزانہ اور جنرل سیکرٹری کی نشست پر بھی پہلے جیتے ہوئے امیدواروں نوشین یوسف صاحبہ اور شکیل انجم صاحب کے نام اور ووٹوں کا اعلان کیا۔اس ترتیب پر انہوں صدر کے انتخاب کا نتائج کا اعلان کرتے ہوئے پہلے شکیل قرار کا نام پڑھا جس کے بعد آزاد پینل جس کو ٹیبلز سے حاصل کی گئی گنتی کے مطابق یقین تھا کہ وہ صدر کی نشست جیت چکے ہیں، نے نعرہ بازی شروع کر دی۔ ان کی نعرہ بازی کے بعد اچانک ناصر زیدی صاحب نے اعلان کیا کہ شکیل قرار صاحب کے ووٹ آپ نے سن لئے۔ طارق چوہدری صاحب صدر منتخب ہوئے ہیں کیونکہ ان کے گیارہ ووٹ زیادہ ہیں۔
الیکشن کمیٹی کے نتائج کے مطابق شکیل قرار صاحب نے 978 جبکہ طارق چوہدری صاحب نے 989 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جرنلسٹ کمیونٹی سب کے لئے ایک رول ماڈل کے طور پر جانی جاتی ہے مگر افسوس کہ آج الیکشن کمیٹی کی جانب سے کی گئی گنتی اور اس کے نتائج کے بعد شاید ہماری صحافی برادری کسی گنتی میں نہ رہے۔ افسوس!!!