مدارس کے طلبہ ایک خاص دائرے سے باہر کیوں نہیں نکل پاتے؟، ایک زبردست رپورٹ
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے مدرسہ سروے سے متعلق قومی سطح کی رپورٹ جاری کردی ہے۔ یہ رپورٹ”After Study Hours: Exploring the Madrassah Mindsetکے نام سے منظر عام پر آئی ہے، جس کی تقریب رونمائی اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی جبکہ سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود،معروف دانشور حارث خلیق،خورشید ندیم ،پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے گفتگو کی۔ اس رپورٹ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ تاریخ کو تنقیدی مگر دلچسپ پیرائے میں طلبہ مدارس کے سامنے رکھا جانا چاہیے جو منطق اور علم الکلام، جو پہلے ہی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، سے مطابقت پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو،یہ عمل انہیں محدود ذہنی حصار سے باہر نکل کر غورو فکر کرنے کی جانب مائل کرسکتا ہے۔اس بنا پرطلبہ کو نہ صرف مدارس کے مخصوص ماحول سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ اس عمل سے عقلی و منطقی علوم میں ان کی دلچسپی کو بھی مہمیز مل سکتی ہے۔
مدرسہ "اصلاحات” کی شروعات ہمیشہ اس نکتے سے ہوتی ہیں کہ مدارس کا نصاب بدل دیا جائے۔ پاکستانی حکومتیں طلبہ مدارس میں سائنسی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے متعلقہ مضامین کو مدارس کے نصاب کا حصہ بنانے کی لگاتار کوششیں کرتی رہی ہیں۔ 2018 میں بھی یہ کوششیں جاری رہتی نظر آرہی ہیں۔
ایک ہی جیسا نصاب پڑھنے کے باوجود بھی طلبہ مسلکی مدار سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وہ بلاشبہ ایک ہی چیز پڑھتے ہوں، مگر اس چیز کے تفصیلی تجزیے کے لیے وہ اپنے مسلک کے علماء سے رجوع کرتے ہیں اوروہ انہیں علماء کو اپنے لیےقابلِ عمل نمونہ بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات پر بھی مسلکی چھاپ نظر آتی ہے ،باوجود اس کے کہ بعض بڑے مسالک میں علاقائی تنوع بھی موجود ہے۔
رسمی یا غیر رسمی، ہر دو طرح کے مکالموں میں طلبہ کی دلچسپی کے موضوعات میں تعلیمی اور مذہبی مسائل سرِ فہرست ہیں ۔ خاص افراد سے طلبہ کی عقیدت ان کے علم و مرتبے کے سبب ہوتی ہے۔ طلبہ ان کا اس درجے احترام کرتے ہیں کہ چھٹی کے اوقات میں بھی حدِ ادب کے باعث طلبہ اور اساتذہ کے درمیان فاصلے حائل رہتے ہیں۔
بیشتر معاملات میں طلبہ مدارس کے ذہن میں موجود برائی، اچھائی کے تصورات عام سماج سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد قومی روزناموں کے قاری اور مقبول کالم نگاروں کے مداح ہیں، اور سماجی ویب سائیٹس کاباقاعدگی سے استعمال بھی کرتے ہیں۔ ایک ہی مکتبِ فکر کے طلبہ کے مابین اس حوالے سے تنوع بھی پایا جاتا ہے۔
یہ مطالعہ طلبہ مدارس میں منطق اور فلسفہ جیسے مضامین میں دلچسپی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے ، جو پہلے ہی مدارس کے نصاب میں شامل ہیں ۔ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ متنوع تاریخی تشریحات کو ان کے سامنے رکھا جائے، جس سے طلبہ میں تاریخ سے دلچسپی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اساتذہ میں سماجی ہم آہنگی کا شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے طلبہ کو ایک دوسرے سے میل جول کے مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔
ذیل میں ملک بھر سے تمام مسالک کے نمائندہ 44 مدارس کے 135 طلبہ کے مطالعے کے نتائج دیے گئے ہیں۔
شخصی پسِ منظر:
جن طلبہ کا جائزہ لیا گیا ، ان کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔ بیشتر طلبہ اپنے پیدائشی صوبوں یا انتظامی اکائیوں میں قائم دینی اداروں میں ہی زیرِ تعلیم تھے۔ مثلاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے طلبہ خیبر پختونخوا میں قائم مدارس میں زیرِ تعلیم تھے۔
تاہم کچھ طلبہ دیگر صوبوں میں بھی زیرِ تعلیم تھے، مگر قریبی صوبوں میں جیسا کہ سندھ کے طلبہ بلوچستان ، پنجاب کے خیبر پختونخوا اور خیبر پختونخوا کے پنجاب کے مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیکن زیادہ تر یہ طلبہ دوسرے صوبے کے متصل اضلاع سے تعلق رکھتے تھے۔
ایسے طلبہ بھی تھے جو اپنے آبائی صوبے سے بہت دور تعلیم حاصل کررہے تھے۔ جیساکہ گلگت بلتستان کے طلبہ کراچی جیسے دور افتادہ شہر کے مدارس میں داخلہ لیے ہوئے تھے۔تاہم اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے کہ ان طلبہ کےخاندان گلگت بلتستان میں رہائش پذیر ہیں یا وہ بھی کراچی میں مقیم ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اپنے ہی صوبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ضروری نہیں اسی شہر کے رہائشی ہوں، جہاں ان کی مادرِ علمی قائم ہے۔لاہور میں قائم ایک مدرسے کے طلبہ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر علاقوں، جیسا کہ فیصل آباد اور قصور سے بھی تعلق رکھتے تھے۔
بیش تر طلبہ اپنے ہی اضلاع یا پھر متصل اضلاع میں قائم مدارس میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ترقیاتی حوالے سے قصور اور فیصل آباد لاہور سے کئی درجے نیچے ہیں اور یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر طلبہ نسبتاً پسماندہ علاقوں سے سفر کر کے ترقیاتی حوالے سے مستحکم شہروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
لیکن ایک قابلِ ذکر تعدا د ایسے طلبہ کی بھی ہے جو نسبتاً مستحکم اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، مگر تعلیم کے حصول کے لیے پسماندہ علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں قائم جامعہ سراج ، جہاں جنوبی پنجاب کے متصل اضلاع کے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ جنوبی پنجاب کے یہ اضلاع ڈیرہ اسمٰعیل خان کی نسبت مستحکم اور بہتر ہیں۔
ایک حد تک طلبہ کےآبائی صوبوں کا بھی عمل دخل رہتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ سے واسطہ نہ رکھنے والے زیادہ تر طلبہ، بہاولنگر، بٹگرام، گلگت، اور قصور کے چھوٹے قصبوں اور دوردراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
نصابی ، ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں:
بیش تر طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کے نصاب میں کوئی ایسا مواد موجود نہیں جو انہیں مخالف مسلک یا عقیدے کے افراد سے میل جول سے منع کرتا ہے۔ بہت قلیل تعداد ایسی بھی تھی ، جن کا جواب ہاں میں تھااورانہوں نے اپنے جواب کی توثیق کے لیے اقلیتوں کے عقائد کا حوالہ دیا۔
طلبہ کی کثیر تعداد اپنے نصاب سے انتہائی مطمئن تھی اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارا نصاب ہماری فکری نمو کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری مذہبی اور تعلیمی ضروریات پوری کرتا ہے۔یقیناً کچھ طلبہ نے اس سے مختلف آراء کا اظہار کیا تاہم وہ اس کی کوئی وجہ بتانے سے قاصر رہے اور ایسے طلبہ میں سے بیشتر کی عمر 20 سال سے کم تھی۔
باوجود اس کے کہ مدارس کا تعلیمی نصاب دوسرے مسالک سے تعلق نہ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا لیکن اکثرطلبہ بین المسالک تعلقات رکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد ایسے طلبہ کی تھی جو سماجی ویب سائٹس پر اپنے ہم مدرسہ اور ہم جماعت ساتھیوں سے دوستی رکھتے ہیں اور پھر بالترتیب دوسرے مدارس کے طلبہ و اساتذہ ، دوسرے مسالک اور دیگر عقائد رکھنے والے افراد سے دوستی کی شرح خاطر خوا ہ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
مدارس کے نصاب میں شامل مضامین میں طلبہ کا اکثریتی رجحان منطق، فلسفہ، علم الکلام اور مطالب و مفاہیم کے بجائے قرآن، حدیث اور اصولِ حدیث کی جانب دیکھا گیا ہے۔ جبکہ شیعہ مکتبِ فکر میں یہ رجحان باقی ماندہ مکاتبِ فکر کے طلبہ سے مختلف نظر آتا ہے۔
نصابی مضامین کے علاوہ زیادہ تر طلبہ کی دلچسپی تاریخ کے مضمون میں دیکھنے کو ملی، جبکہ کچھ طلبہ نے کمپیوٹر میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔
20فیصد طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کے مدارس میں ہم نصابی سرگرمیوں میں انہیں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت میسر ہے ۔ جبکہ بیش تر نے اس حوالے سے کھیلوں کا ذکر کیا۔
طلبہ کی اکثریت نے کہا کہ ان کے مدارس میں مکالموں اور مباحثوں کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کے بیش تر طلبہ تقریر و وعظ کو اظہارِ رائے کا پسندیدہ ذریعہ کہتے ہیں۔
جن موضوعات پر مباحثے یا مکالمے منعقد ہوتے ہیں، وہ زیادہ تر تعلیم اور مذہب پر محیط ہوتے ہیں۔یہی موضوعات طلبہ کے مابین اور طلبہ اور ان کے اساتذہ کے مابین زیادہ زیرِ بحث لائے جاتے ہیں اور ان دونوں موضوعات میں بھی مذہب کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ تعلیم کا موضوع ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام چلنے والے مدارس میں یہ رجحان قدرے مختلف ہے جہاں سیاست بھی ایک اہم موضوع کے طور پر زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
طلبہ کی انتہائی قلیل تعداد نے کہا کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں ،جس کا مطلب مدرسہ کی حدود سے باہر ہے، کے طور پر باہمی محافل میں مسلکی موضوعات کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ جبکہ بیش تر طلبہ نے کہا کہ اس دوران وہ مذہبی مجالس اور کانفرنسز میں شرکت کرتے ہیں۔طلبہ کی ایک قابلِ ذکر تعداد نے کہا کہ وہ کھیلوں، سیر و سیاحت اور تفریح میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی اور اہلِ حدیث طلبہ کی اکثریت فلاحی کاموں کا انتخاب کرتے ہیں۔
عالمی تناظر:
تمام طلبہ اپنےہی مکتبِ فکر کی سیاسی مذہبی جماعتوں سے متاثر نظر آئے۔ دیوبندی مدارس کے طلبہ نےبطور پسندیدہ سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور بریلوی مدارس کے طلبہ نے جمعیت علمائے پاکستان کا انتخاب کیا۔ بیش تر طلبہ نے کہا کہ وہ اپنے قائدین سے ملاقات کے مواقع حاصل کر چکے ہیں اور وہ ان جماعتوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ کچھ طلبہ نے قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ زیادہ تر طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جماعتی قائدین سے نہیں مل پاتے اور نہ ہی ان جماعتوں کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔
طلبہ کی کثیر تعداد اردو زبان میں چھپنے میں معروف قومی و صوبائی روزنامے پڑھتی ہے۔ ان کے پسندیدہ کالم نگاروں میں مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ معروف اردو لکھاری بھی شامل ہیں۔
طلبہ اپنے مکاتبِ فکر سے وابستہ متنوع اردو جریدوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نسبتاًمعتدل فکر کے حامل ہیں ۔ تاہم یہ جریدے اپنے مخالف مکاتبِ فکر سے پسندیدگی کی سند حاصل نہیں کر سکے۔یہی رجحان پسندیدہ جریدہ لکھاریوں کے حوالے سے بھی سامنے آتا ہے۔
حتیٰ کہ طلبہ کی پسندیدہ شخصیات میں بھی مسلکی رنگ نمایاں ہے اور کسی ایک مسلک کی شخصیت کسی دوسرے مسلک کے طلبہ مدارس کی پسندیدہ شخصیات میں شامل نہیں ہے۔یہ شخصیات مذہبی ، سیاسی اور سماجی مقام و مرتبے کے لحاظ سے پسندیدہ منتخب کی گئی تھیں۔
مسلکی تقسیم:
طلبہ مدارس کے زیادہ تر رجحانات میں فطری طور پر مسلکی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک حد تک یہ قابلِ فہم ہے کیونکہ ہر مدرسہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلکی بنیادوں پر قائم وفاق سے ملحق ہوں، جن کی تعدا د پانچ ہے اور وہ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، شیعہ اور جماعتِ اسلامی مکاتبِ فکر سے منسلک ہیں۔ تاہم اس جائزے کے دوران تمام مکاتبِ فکر کے طلبہ میں متنوع رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
دیوبندی طلبہ صوبائی اور نظریاتی سطح پر باہم مختلف رجحانات رکھتے ہیں۔ دوسرے طلبہ کی طرح ان کا جھکاؤ بھی مسلکی سیاسی جماعتوں کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ تاہم زیادہ تر طلبہ ، بالخصوص خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کی پیروی کرتے ہیں، دوسرے نمبر پر بالخصوص پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر میں وہ اہلسنت والجماعت پاکستان کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں جو کہ ایک کالعدم تنظیم ہے۔ باقی مکاتبِ فکر سے وابستہ طلبہ کے برعکس دیوبندی طلبہ سماجی ویب سائٹس پر سماجی و سیاسی رہنماؤں کو اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کرنے میں پیش پیش ہیں۔
بریلوی طلبہ میں بھی اسی طرح سیاسی حوالے سے مختلف رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں۔ وہ پہلے نمبر پر جمعیت علمائے پاکستان اور دوسرے نمبر پر جماعتِ اہلِ سنت کی طرف مائل ہیں، جبکہ دونوں جماعتیں ایک ہی طرح کی سیاسی فکر کی حامل ہیں۔ اپنے اساتذہ کے ساتھ چار گھنٹوں سے زیادہ وقت گزارنے والے طلبہ کی اکثریت بریلوی مکتبِ فکر سے وابستہ ہے۔
شیعہ طلبہ باقی ماندہ تمام مکاتبِ فکر کے برعکس مختلف رجحانات کے حامل ہیں۔ شیعہ طلبہ کی کثیر تعداد نے منطق اور فلسفہ کو اپنا پسندیدہ مضمون قرار دیا۔ کسی ایک شیعہ طالبِ علم نے بھی یہ نہیں کہا کہ ان کے مدرسے میں مباحثوں کا انتظام نہیں کیا جاتا۔
جبکہ طلبہ کی اکثریت تاریخ میں دلچسپی رکھتی ہے، اہلِ حدیث طلبہ مطالعہ پاکستان کو حد درجہ پسند کرتے ہیں۔ ان میں سیاسی رجحانات میں تنوع نہیں پایا جاتا، اکثر طلبہ نے جمعیت اہل حدیث کو اپنی پسندیدہ جماعت کے طور پر منتخب کیا۔
جماعتِ اسلامی کے طلبہ بھی دیگر جماعتوں کے بارے میں زیادہ وسعت نہیں رکھتے۔ دیگر مکاتبِ فکر کے برعکس جماعتِ اسلامی سے وابستہ مدارس کے طلبہ اپنے رسمی و غیر سمی مباحثوں میں مذہبی موضوعات کو بمشکل زیرِ بحث لاتے ہیں۔
اس سروے میں سبوخ سید، مجتبیٰ راٹھور اور محمد یونس نے بطور فیلڈریسرچر کام کیا جبکہ اس رپورٹ کی تیاری میں محمد اسماعیل خان،صفدر سیال اور زرغونہ عالم نے بھرپور کام کیا۔