خبر ایک بار پھر گرم ہے
موسم پہ بات اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی ’اچھی بی‘ بننا چاہتا ہو۔ یعنی جملۂ معترضہ سے کنی کترانا مقصود ہو۔
اس کے علاوہ موسم پر بات کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موسم کوئی اور بات کرنے ہی نہیں دے رہا۔ سورج سوا نیزے پر ہے اور
’ماہی جو سیخِ موج تک آئی کباب تھی‘
والی کیفیت ہے۔
پچھلے سال کراچی میں گرمی کی لہر آئی اور سینکڑوں گھروں کے چراغ بجھا گئی۔ شنید تھی کہ اس سال بھی آئے گی، چنانچہ تین سو قبریں کھود کے انتظار شروع کر دیا، لیکن ان درجنوں سمندری طوفانوں کی طرح جو کراچی کے ساحل سے کنارہ کر گئے، یہ لہر بھی ٹل گئی۔
گرمی سے بچنے کے ہزاروں ٹوٹکے ہیں۔ سب سے پہلی ترکیب تو یہ ہے کہ گرمی میں نکلیں ہی نہ۔ آخر ضرورت کیا ہے اس قدر اوائی توائی پھرنے کی؟ دوسری بات یہ کہ اگر نکلنا پڑ ہی جائے تو اے سی والی گاڑی میں نکلیں اور اگر گاڑی کی ہستی نہیں تو بھائی کس نے مشورہ دیا کہ جا کے سورج سے سینگ اڑائے جائیں؟
اگر لامحالہ باہر نکلنا ہی ہے تو چھاتہ لے لیجیے، تولیہ گیلا کر کے سراور کندھوں پر ڈال لیجیے۔ سرد مشروبات خاص کر ستّو، املی، آلو بخارے کا شربت اور بادام کی سردائی پیجیے، شام کو نہائیے، خس کا عطر لگائیے، بان کی چارپائی پر لیٹ کے آسمان پہ دبِ اک
بر اور بنات النعش ڈھونڈیے، کدو کا رائتہ اور لوکی کا بھرتا نوشِ جاں فرمایے۔
گرمی ہی ہے نا، جب شبِ ہجراں کاٹی جا سکتی ہے تو ایک دو ماہ کی گرمی کی کیا حیثیت؟
گرمی اوراس خطے کا ساتھ کوئی نیا تو نہیں، گرمی سے بچت کے لیے ہلکے کپڑے پہنے جاتے ہیں، آپ بھی پہنیے، ململ، لان وغیرہ۔ لان کے کپڑے خریدتے ہوئے، اور خاص کر اگر سیل سے خریدے جا رہے ہوں، تو احتیاط کیجیے۔ اگر کوئی ہاتھ آپ کے بالوں یا دامن کی طرف بڑھے تو فوراً دکان سے باہر نکل جائیے، ورنہ ہم نے یہاں چاکِ گریباں کو دامن سے ملتے اکثر دیکھا ہے۔
گرمی پڑتی ہے تو انسان ہی نہیں چرند، پرند، نباتات سب ہی اس کے اثر میں آتے ہیں۔ اچھے دل کے لوگ اپنے گھروں کے باہر پرندوں کے لیے پانی کی کونڈیاں رکھ دیتے ہیں۔ مزید اچھے دل کے لوگ گھر کے باہر پانی کا کولر لگا دیتے ہیں اور کچھ بہت ہی اچھے لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لیے گلاس کو زنجیر سے باندھ دیتے ہیں۔
گرمی سے بچاؤ کا ایک نسخہ جو سنا ہے کہ حیدر آباد دکن کے ایک وزیر نے اپنا رکھا تھا کہ دن بھر آرام کیا جائے اور شام پڑتے ہی دفتر لگ جائے، رات بھر کام اور علی الصبح دفتر بند۔
پاکستان میں حیدر آباد دکن کی بہت سی اصلاحات نافذ کی گئیں، لیکن یہاں ایک قباحت ہے۔ اوقاتِ کار ایک ہونے سے سب پیشوں پر ایک ہی پیشے کا شبہ ہونے لگے گا۔ کچھ تفریق تو ضروری ہے، چاہے اوقاتِ کار ہی کی کیوں نہ ہو۔
کچھ احمق کہتے ہیں درخت لگائیے، درخت لگانے سے گرمی کا زور کم ہو جائے گا۔ ان کم عقلوں کو کیا معلوم کہ یہ 21ویں صدی ہے، درختوں کے نیچے سونے کے زمانے لد گئے، اب اے سی کا دور ہے۔ یہ اور بات کہ اسے چلانے کو جو بجلی درکار ہے وہ کم کم میسر ہے، لیکن خیر اب ایسے بھی حالات نہیں کہ انسان گھبرا کے درخت لگانے ہی نکل جائے۔
درختوں کی بات کرنے والے نہایت رجعت پسند اور بےڈھنگے لوگ ہوتے ہیں۔ یقیناً ان کی یا ان کے عزیزوں کی نرسریاں ہوں گی جن کے پودے اور قلمیں بِکوانے کو یہ اس قسم کے شوشے چھوڑا کرتے ہیں۔
یوں بھی درخت فضول سی چیز ہیں۔ بیر کے ہوں تو لوگ جانے کیوں پتھر مارتے ہیں۔ سڑک کنارے لگے ہوں تو سڑک چوڑی کرنے کو گرائے جانے پر فساد ہو گا۔ اگر جنگل کی شکل میں ہوں تو کسی خدا کے بندے کے چند سو لٹھ کٹوا لینے پر غلغلہ مچے گا۔
درخت بھلا فائدہ ہی کیا دیتے ہیں؟ لکڑی تو اب وینر ہی استعمال ہوتی ہے اور ہم کوئی بندر تو ہیں نہیں کہ درختوں سے لٹکنے کو زندگی کا حاصل جانیں۔ رہی بات آکسیجن کی تو اس کے لیے ہم بات کر رہے ہیں، جلد ہی چائنا سے بنی بنائی آکسیجن منگا لیں گے۔ کم خرچ بالا نشین۔
ویسے گرمی سے بچنے کا آزمودہ نسخہ جو پاکستان کے 75 فی صد گھروں میں کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے: ’پھپھو کے گھر چلے جائیں اس سے پہلے کہ پھپھو آپ کے گھر آئیں۔‘
اس طریقے سے جو ٹھنڈ پڑتی ہے وہ ستمبر، اکتوبر تک برقرار رہتی ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر!