تعلیمی درجہ بندی: بلوچستان آخری،
پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں زیر تعلیم بچوں میں سے نصف اردو، انگریزی اور ریاضی کی بنیاد سے بھی لاعلم ہیں۔
یہ تازہ رپورٹ الف اعلان اور ایس ڈی پی آئی نے جاری کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سندھ میں 55 فیصد بچے اردو کی کہانی نہیں پڑھ سکتے، 76 فیصد انگریزی کا ایک جملہ بھی پڑھنے سے قاصر ہیں اور 65 فیصد بچے دو ہندسوں کی تقسیم کی بھی قابلیت نہیں رکھتے۔
صوبہ سندھ میں سکولوں کی کل تعداد 46 ہزار سے زائد ہے، جن میں سے صرف ساڑھے دس ہزار یعنی 22.8 فیصد طالبات کے لیے ہیں۔ ان طلبہ اور طالبات کے لیے ایک لاکھ 44 ہزار اساتذہ موجود ہیں جن میں سے 44500 خواتین ٹیچرز ہیں۔
الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی سکور میں گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی صوبہ سندھ چھٹے نمبر پر رہا۔ سندھ کے صرف چھ اضلاع درجہ بندی کے پہلے نصف میں جگہ لینے میں کامیاب ہوسکے جبکہ کوئی بھی ضلع 40 درجوں میں شامل نہیں ہوسکا۔
اس رپورٹ میں ترتیب وار اسلام آباد کو پہلا درجہ، آزاد جموں و کشمیر کو دوسرا، پنجاب کو تیسرا، گلگت بلتستان کو چوتھا، خیبر پختونخوا کو پانچواں، صوبہ سندھ کو چھٹا، فاٹا کو ساتواں اور اور بلوچستان کو آٹھواں درجہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں سکول انفراسٹرکچر سکور پچاس سے بھی کم رہا اور صوبے میں صرف 23 فیصد سکول ایسے ہیں جن میں چاروں بنیادی سہولیات یعنی بجلی، پینے کا پانی، لیٹرین اور چار دیواری دستیاب ہیں۔
الف اعلان کے جائزے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ میں سکول میں داخلے کے بعد 50 فیصد بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں جن میں نصف لڑکیاں ہیں جبکہ 56 فیصد بچے کبھی سکول ہی نہیں گئے۔
الف اعلان اور ایس ڈی پی آئی کی ضلعی تعلیمی درجہ بندی کے بارے میں یہ چوتھی رپورٹ ہے جو چار سالوں کی درجہ بندیوں کے ساتھ ضلعی موازانہ بھی پیش کرتی ہے۔ اس تازہ درجہ بندی میں ملک کے 151 اضلاع، ایجنسیوں اور فرنٹیئر ریجنز کو شامل کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں وزیر اعظم، چاروں صوبائی وزرا اعلیٰ اور قائدین حزب اختلاف کے انتخابی حلقوں میں بھی تعلیم صورتحال پر نظر ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تعلیمی اور سکول انفرا سٹرکچر میں خراب کارکردگی دکھانے کے باعث بلوچستان صوبائی درجہ بندی میں آخری درجے پر پہنچ گیا ہے۔ پنجاب سب سے آگے ہے اس کے 93 فیصد سکولوں میں تمام بنیادی سہولیات موجود ہیں۔
صوبہ سندھ میں 19500 ایسے سکول ہیں جن میں صرف ایک استاد تعینات ہے، پنجاب میں ان سکولوں کی تعداد 5500 کے قریب ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک بھی ایسا سکول نہیں جبکہ بلوچستان کے 11 ہزار پرائمری سکولوں میں سے نصف میں ایک ہی استاد تعینات ہے۔