’جی بھائی‘
بلاگ: رئیس انصاری
جی بھائی، یہ لفظ سامنے آتے ہی ایک سیاسی جماعت اور اس کےسابقہ قائد کا نام ذہن میں ابھر کر آتا ہے۔ جی بھائی، پارٹی ہے ایم کیو ایم جس کے ساتھ پاکستان کا نام لگا کر نیا نام ایم کیو ایم پاکستان رکھ دیا گیا۔
بھائی کے ہوتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ارکان (موجودہ رہنما ایم کیو ایم پاکستان) گونگے بہروں کی طرح بیٹھے رہتے اور گونگلووں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے اپنی رائے الطاف بھائی کی منشاء اور خوشنودی کے آگے سرنڈر کر دیتے تھے۔
’بھائی‘ جو فیصلہ صادر فرماتے اور رابطہ کمیٹی سے مخاطب ہوتے تو تمام اراکین یک زبان ہوکر کہتے ’جی بھائی‘ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ’بھائی‘، اگر بھائی غصے میں ہوتے تو کہتے ’جس طرح آپ کا حکم بھائی‘ اور یہ سب یوں ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سب کے لیے ’بھائی‘ سے وفاداری کا حلف لیا جاتا تھا۔
ان دنوں الطاف حسین جس رہنما کا نام لے کر جو بھی کہتے اس کا جواب ’جی بھائی‘۔
الطاف حسین مسلسل مہاجروں کے حقوق کی آڑ لے کر پاکستان کے خلاف اکساتے رہتے اور پارٹی کارکن سے رابطہ کمیٹی تک سب نہ چاہتے ہوئے بھی بوجہ خاموش رہتے، دوسری صورت میں ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں "شہید ایم کیو ایم "ہوجاتے۔
اس پر بھی بھائی تقریر کرکے کارکنان کے سامنے مگرمچھ کے آنسو بہاتے اور ساتھی بھائی کو چپ کرانے کی کوششیں کرتے رہتے۔ بھائی کی ان حرکتوں پر عوام سخت غم و غصہ کرتے لیکن خوف کے باعث کوئی بولنے کی جرات نہیں کرتا۔
وہ 22 اگست کا دن تھا جب اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ "بھائی” نے کھلم کھلا پاکستان مخالف تقریر کی اور پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگواِئے، رابطہ کمیٹی سمیت پوری مقامی قیادت پاکستان مخالف نعرے لگتے دیکھتے رہے لیکن کوئی بھی نہ کہہ سکا کہ ’نہیں بھائی، نہیں بھائی‘، بس سر جھکا کر سنتے رہے یہی وہ وقت تھا جب ’بھائی‘ کی اصلیت کھل کر پوری قوم سے سامنے آگئی۔
قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور رابطہ کمیٹی سمیت کسی رہنما یا کارکن میں عوامی غصے کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رہی اور ہوتی بھی کیسے جس ملک کا کھاتے ہیں اس سے نمک حرامی کیسے ممکن تھا۔
23 اگست کو مقامی قیادت کے پاس "بھائی "سے لا تعلقی کے سوا کوئی راہ نہیں تھی اور انہوں نے ” بھائی” سے کہہ دیا ” بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب، آج کے بعد ملاقات نہیں چیف صاحب”۔
لیکن اس تمام صورت حال کے باوجود میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر اور رابطہ کمیٹی سمیت دیگر ساتھی اپنے اپنے اختیارات بتانے والے کیا وہ دور بھول گئے ہیں جب ان کی حیثیت ربڑ اسٹمپ سے زیادہ نہیں تھی۔ اس دور میں کیا کیا نہیں ہوتا رہا، جن رہنماؤں میں ” بھائی ” کی فرعونیت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں تھا وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
بلا آخر کارکنان کی "بھائی” کی فرعونیت سے جان چھوٹ گئی لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ بظاہر یہ جان چھوٹ گئی ہے لیکن ان کی جڑیں اب بھی موجود ہیں، شاید اس کی وجہ ایم کیو ایم پاکستان کے کچھ رہنماؤں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور پارٹی آئین کی باتیں کرنا ہے جب کہ کچھ "لوگوں” کی طرف سے یہ الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ ابھی "لندن ” سے رابطہ ختم نہیں ہوا۔
ایم کیوایم سے ایم کیو ایم پاکستان بننے پر فاروق ستار لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم کے بچانے میں فاروق ستار نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔
سینٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے بھی ایک بار فاروق ستار نے پارٹی قیادت چھوڑنے کی بات کی تو معاملہ سنبھال لیا گیا لیکن فاروق ستار نے اب رابطہ کمیٹی سے مشاورت میں تین ناموں کے ساتھ ایک نام کامران ٹیسوری کا شامل کیا تو سب کو پارٹی آئین یاد آگیا۔
رابطہ کمیٹی کی طاقت یاد آگئی، ماہر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں رابطہ کمیٹی کی دو تہائی اکثریت "کنوینئر ” کو تبدیل کرسکتی ہے یعنی انہوں نے سربراہ کو تبدیل کرنے کا عندیہ دے دیا۔
روف صدیقی کہتے ہیں سارے اختیارات رابطہ کمیٹی کے پاس ہیں، پارٹی میرٹ پر چلے گی جب کہ فیصل سبزواری کہتے ہیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، یہ تو چند رہنما ہیں جو آج اپنی اپنی بات کر رہے ہیں لیکن قائد کے سامنے ان سب کی سانس رک جاتی تھی اور "جی بھائی” کے سوا کچھ اور کہنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔
آج فاروق ستار کی جگہ "بانی "ہوتے تو رابطہ کمیٹی ان چار ناموں پر اپنی مہر ثبت کرتے دیر نہیں لگاتی۔ اگر "بھائی” تمام نام تبدیل کرکے پہلا نام کامران ٹیسوری کا دیتے تو بھی ایک ہی آواز آتی ” جی بھائی ، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں "۔
فاروق ستار نے پارٹی سربراہ کے طور پر ایک شخص کا نام دے ہی دیا تو کون سی قیامت آگئی،کامران ٹیسوری کا نام پانچویں نمبر پر تھا، پارٹی سربراہ نے کامران کا نام پانچویں کے بجائے چوتھے نمبر پر کیا تھا، باقی تین ناموں کی منظوری تو رابطہ کمیٹی نے دے دی تھی۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ رابطہ کمیٹی فاروق ستار "بھائی "کو پارٹی کا سربراہ مانتی ہے تو ان کی طرف سے سامنے آنے پر ایک نام کو قبول کرلینا چائیے تھا۔
اس معاملے کو تماشا بنانے کے بجائے خاموشی اور خوش اسلوبی سے حل کرکے سربراہ کی عزت رکھنی چائیے تھی، آج جو رہنما پارٹی کو میرٹ پر چلانے کی بات کرتے ہیں، کیا یہی رہنما اسی طرح پہلے بھی میرٹ کی بات کرتے تھے۔
کیا "بانی "کے فیصلے کے بعد یہ رہنما اس طرح بار بار میڈیا پر آکر ان کے خلاف بات کرنے کی جرات کرتے تھے، پارٹی اختلافات کو پارٹی کے اندر ہی حل کیا جاتا ہے میڈیا پر تماشا نہیں بنایا جاتا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کچھ رہنماؤں کی یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک "بھائی” سے اللہ اللہ کرکے جان چھوٹی ہے اب کوئی دوسرا "بھائی” بننے کی کوشش نہ کرے اور آج کے سربراہ کو یہ تاثر ختم کر دینا چاہیے کیوں کہ "بھائی” بننے سے بہتر ہے کہ "بڑا بھائی” بن کر سوچا جائے تا کہ سب دل سے کہنا شروع کر دیں کہ "جی بھائی”۔