دوبارہ زندگی ملے تو مستری بننا پسندکروں گا‘‘
آئن اسٹائن بہ حیثیت سائنس داں دنیا کی سب سے مقبول شخصیت ہیں، جن کا چہرہ سب سے زیادہ مانوس اور جانا پہچانا ہے، جو کہ بچوں میں بھی شناسائی رکھتا ہے۔ آج ان کی وفات کے 60 سال بعد بھی ان کی مقبولیت نہ صرف قائم و دائم ہے بل کہ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کی سائٹس جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام وغیرہ آئن اسٹائن سے منسوب اکاؤنٹس چلائے جارہے ہیں جن کے لیے زبردست عوامی پذیرائی پائی جاتی ہے۔
’’فیس بک‘‘ کا آئن اسٹائن اکاؤنٹ ایک 26 سالہ نوجوان انتھونی اِلیاکوَسٹس (Anthony Iliakostas)چلارہا ہے، جس کا تعلق نیویارک سے ہے۔ انتھونی نے امریکی معروف خبررساںادارے ABC پر انٹرشپ مکمل کی تھی اور اسے پھر ’’کوربس‘‘ منتقل کردیاگیا تھا، جہاں وہ ’’آئن اسٹائن اسٹیٹ‘‘ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ مارچ 2015 ء سے وہ کوربس آن دی آئن اسٹائن ٹیم کے ساتھ کام کررہا ہے۔
یہ انتھونی ہی ہے جوکہ آئن اسٹائن سے متعلق فیس بک پر “THANKS EINSTEIN!” کے عنوان سے مقابلہ منعقد کرواتا ہے۔آئن اسٹائن کے فیس بک فینز کی تعداد ایک کروڑ ،70 لاکھ (17 ملین) سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں اکثریت 18 سال سے 35 سال عمر کے نوجوانوں کی ہے، جس سے نوجوانوں میں آئن اسٹائن سے محبت اور ان کی مقبولیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آئن اسٹائن کی شخصیت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت سادہ مزاج اور عام طبعیت کے انسان تھے، جو شیو کرنے کے لیے نہانے والا صابن ہی استعمال کرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دو الگ صابنوں کا استعمال زندگی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ فوجی پریڈ انہیں سخت ناپسند تھی، جسے وہ مشینی حرکات کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’معلومات علم نہیں ہے!‘‘ اس کا اندازہ آج کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں بہ خوبی ہورہا ہے، جہاں قدم قدم پر آپ کو معلومات مل رہی ہیں، لیکن کہیں عقل ودانش (Wisdom) دکھائی نہیں دیتی۔
اپنے کام سے لگاؤ اور اخلاص کی راہ میں رکاوٹوں کے باعث انہوں نے ایک بار یہ بیان دیا تھا،’’اگرمجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ایک عام مستری (ٹیکنیشن) بننا پسندکروںگا اور کہیں دکان کھول کر بیٹھ رہوںگا۔‘‘ ان کی اس بات سے یہ تاثر قائم کرنا مشکل نہیں کہ وہ دماغی لحاظ سے کس قدر آزادانہ طریقے سے اور ماحول میں رہ کر کام کرنا چاہتے تھے۔ فزکس میں نظریاتی کام میں انہیں سب سے زیادہ اسمارٹ اور ذہین شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا رہے گا، جس کے کہ وہ یقینا مستحق ہیں۔ آئن اسٹائن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی ذات سے بہت کچھ سیکھا او ر اپنی زندگی کے تجربات سے راہ نمائی حاصل کی۔ یہاں ان کی زندگی کے 25 اہم ترین اسباق یا ان کے اقوال دیے جارہے ہیں، جن سے ان کی شخصیت اور ذہانت کی کسی قدر ترجمانی ہوتی ہے اور اسے مشعل راہ بنایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
1 ۔ شعوری بالیدگی کی نشوونما کا آغا ز پیدائش سے اور موت پر ہی اس کا اختتام ہونا چاہیے۔
2 ۔ انفرادی طور پر ہر ایک قابل احترام ہوتا ہے لیکن شخصیت پرستی نہیں ہونی چاہیے۔
3 ۔ جو عمل اپنے ضمیر کی گواہی کے برخلاف ہو اسے کبھی نہیں کرنا چاہیے۔
4 ۔ اگر لوگ محض اس لیے اچھے ہیں کہ وہ سزا سے ڈرتے ہیں اور صلے میں انعام کی توقع رکھتے ہیں تو ہمارے لیے یہ نہایت قابل ِافسوس ہے۔
5۔ پختگی کے حصول میں مقاصد کی الجھنیں اپنا اصل مسئلہ سجھا دیتی ہیں۔
6 ۔ فرض کے سامنے محبت ایک بہتر استاد ہوتا ہے۔
7 ۔اگر آپ سادہ سی وضاحت نہیں کرسکتے تو آپ بہت زیادہ سمجھ بھی نہیں سکتے۔
8 ۔ ایک جیسی آگاہی کے احساس سے مشکل حل نہیں ہوتی، وہ تخلیق ہے۔
9 ۔ دیوانگی اور پاگل پن ہے کہ ایک جیسے فعل کو بار بار دہرایا جائے اور مختلف نتائج کی توقع رکھی جائے۔
10۔ کل سے سبق سیکھو، آج میں جیو اور کل کی امید رکھو۔
11۔ نسل انسانی کی ٹیکنالوجی کی حد سے گزرتی ترقی بظاہر خوف میں مبتلا کردیتی ہے۔
12۔ ہر وہ شے جو کہ قابل شمار ہے، ضروری نہیں کہ اس کا شمار ہو اور ہر وہ چیز جو شمار ہوتی ہے ضروری نہیں کہ اس کا شمار کیا گیا ہو۔
13۔ طاقت ہمیشہ ہی سے اخلاقیات میں نچلے درجے کے لوگوں کے لیے باعث کشش ہے۔
14۔ سب ہی کچھ سادہ طریقے سے ہونا چاہیے لیکن بالکل سہل بھی نہ ہو۔
15۔ آدمی کی تلاش اس بنیاد پر ہونی چاہیے کہ وہ کیا ہے؟ نہ کہ وہ کیا سوچ رکھتا ہے۔
16۔ کوئی انسان جو مطالعہ تو بہت زیادہ کرے اور اپنے دماغ سے اس کا استعمال کم سے کم کرے تو اس کی سوچ سست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔
17۔ ایک شخص جو کبھی غلطی نہیں کرتا ،کچھ نیا کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔
18۔ سب سے افضل آرٹ یہ ہے کہ استاد تخلیقی تاثر اور علم کو اُبھار دے۔
19۔ کوئی بھی جو کہ چھوٹے معاملات میں سچ کو سنجیدگی سے نہ لیتا ہو، کسی بڑے معاملے میں بھی قابل اعتبار نہیں ہوتا۔
20 ۔ عظیم روحوں کا ہمیشہ ہی اوسط درجے کے ذہنوں سے مقابلہ رہا ہے۔
21 ۔ حصول تعلیم میں جو باتیں اسکول میں نہیں بھولتیں اور یا د رہ جاتی ہیں وہ تعلیم ہے۔
22 ۔ منطق آپ کو A سے B تک مل سکتی ہے جب کہ تخّیل آپ کو کہیں بھی پہنچا سکتا ہے۔
23 ۔ غصّہ صرف احمقوں کے سینوں میں بسار ہتا ہے۔
23 ۔ معلومات(آگہی) علم نہیں ہے۔
25 ۔ اپنے مثبت تجسّس کو کبھی نہ کھو۔