ویلنٹائنز ڈے: قصور والدین کا بھی ہے!
ویلنٹائنز ڈے شاید ایسے موضوعات میں سے ایک ہے جس پر ہر انسان، خواہ وہ اس کے بارے میں کیسی ہی رائے کیوں نہ رکھتا ہو، بولنے کو اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے جذبات سے لبریز ہوتے ہوئے ہم اس کی نوعیت اور گہرائی تک پہنچنے سے قاصر رہے اور فقط اپنے مفروضات کو ظاہری حقائق پر غالب لانے کی مکمل کوشش کرتے رہے ہیں۔
ویلنٹائنز ڈے جو کہ نوجوان طبقہ میں غیرمعمولی حد تک مقبول ہوچکا ہے، ایک بڑی تعداد بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کرتے ہوئے اس کی بھرپور سیلیبریشن سے بھی گریز نہیں کرتی۔ مشرق اور بالخصوص پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی نقطہ نظر سے ویلنٹائنز ڈے کسی صورت بھی معاشرے کے موافق نہیں رہا، اس پر کی جانے والی تنقید کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ لیکن جس چیز کو ہم ہمیشہ سے نظر انداز کرتے آرہے ہیں وہ ہے ویلنٹائنز ڈے کی طرف نوجوانوں کی بے انتہا رغبت۔
آخر کیا وجہ ہے جو نوجوانوں میں اس دن کی اس قدر پذیرائی کا سبب بن رہی ہے؟ اس کے علاوہ کوئی حقیقت بظاہر قابل ذکر نہیں کہ ویلنٹائنز ڈے منانے والوں میں کثیر تعداد غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیوں کی ہے کہ جو یا تو ابھی اس قابل نہیں کہ ازدواج کا انتخاب کر سکیں، یا پھر والدین اور معاشرے کی جانب سے روایات کی پابندیوں کا شکار ہیں اور فقط اس وقتی محبت کے رشتے پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں اور شاید اپنی زندگی کو باقاعدہ اصول کے تحت کسی راہ پر گامزن دیکھنے سے عاجز ہیں۔
بعد از بلوغیت ہر انسان اپنے وجود میں مقابل جنس کے متعلق احساسات و خیالات میں کشش محسوس کرتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ یہ ایک فطری حقیقت ہے جس کی تکمیل کےلیے کوئی مخصوص راستہ قرار دینا مشکل ہے۔ مثلاً اگر کسی انسان کو اس کی جنسی ضروریات کی تکمیل کا جائز ذریعہ میسر نہ آئے تو وہ اس کےلیے کسی بھی راستے کا انتخاب کر سکتا ہے جو اکثر انتہائی منفی نتائج کا سبب بنتا ہے۔
یہ بات انسان کی اپنی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ کس ذریعے سے اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرے۔ عموماً اس چیز کو برا تصور کیا جاتا ہے کہ بچوں کے جنسی معاملات پر توجہ دی جائے، لیکن شاید اگر ایسا ممکن ہو سکے تو والدین اور اولاد کا رشتہ مزید مضبوط اور شفاف ثابت ہو سکتا ہے۔ بچوں کی فطرت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ماں باپ سے فقط اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے متعلق ان کو یقین ہو کہ وہ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو والدین چاہے اس کی انفرادی زندگی کے حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں، لیکن ناکام رہیں گے۔
اکثر والدین یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ بچے ان کے ساتھ رابطہ برقرار نہیں رکھنا چاہتے، لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ مخصوص موضوعات پر ان کے مزاج کی تلخی ہی بچوں کی اس دوری کا باعث ہے۔ لہذا یہ بات تو یقیناً واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ اگر ایسے ثقافتی طریقوں کو ہم اپنے معاشرے سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہ بات تصور سے باہر نکال دینی چاہیے کہ دورِحاضر میں جوانی کے عالم میں کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی جنسی خواہشات کو روایات کے زیر اثر لایا جاسکتا ہے۔ ایسے تمام مسائل کے حل کےلئے کوئی مناسب طریقہ اپنانا ضروری ہے۔
ویلنٹائنز ڈے پر تنقید کے تیر برسانے والے اکثر والدین مذہبی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے قول و فعل میں شدید تضاد کو جگہ دیتے ہیں اور فقط مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قدیم روایات کے پابند ہیں۔ یہی والدین اولاد کو ہر شے مہیا کرنے کے باوجود ان کی زندگی کے سب سے اہم پہلو سے ہمیشہ بےخبر معلوم ہوتے ہیں، اور اس بات کو خود کےلیے عیب سے زیادہ برا تصور کرتے ہیں کہ وہ روایتی طریقے سے ہٹ کر اپنی اولاد کو رشتہ ازدواج میں دیکھ سکیں۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ جہاں وہ بچوں کےلیے دیگر تمام آسائشات مہیا کرتے ہیں وہیں ان کے فطری تقاضوں پر بھی گہری نظر رکھیں اور ان تمام کو بھی اتنی ہی اہمیت سے نوازیں جتنی دیگر دنیاوی معاملات کو دی جاتی ہے۔
ان مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ والدین کی جانب سے اولاد کو اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کے تعین کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ اور چونکہ زمانے کی جدت اور عقل و فہم کے استعمال نے اکثر قدیم روایات کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا ہے، اور دور حاضر کا نوجوان بھی ان پر مزید عمل کرنا جہالت کی دلیل سمجھتا ہے، اس لیے اب ممکن نہیں کہ والدین بچوں کو اسی طریقے پر عمل کرتا دیکھ سکیں کہ جس پر وہ عمل کر چکے ہیں۔
یہاں یہ بات کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ والدین اولاد کے معاملات سے خود کو بے دخل کر لیں، بلکہ اس قدر اہتمام ضرور رکھیں کہ بچے اپنی ذاتی زندگی کے پہلو بھی ماں باپ کے سامنے رکھ سکیں۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان ہر طرح کی غیر عقلی روایت سے قطع نظر اولاد کے مسائل میں دلچسپی لے۔ ورنہ آئندہ آنے والے سالوں میں ماں باپ اس بات کی شکایت کرتے نظر آئیں گے کہ بچے ان سے اس طرح برتاؤ نہیں رہے جیسا ان کا حق ہے ۔
اور اگر ویلنٹائنز ڈے کو مغرب کی یلغار سمجھتے ہوئے اس سے نجات ہی چاہتے ہیں، تو لازم ہے کہ دقیق روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے رشتہ ازدواج کو آسان بنانے کےلیے ایسے حالات مہیا کریں جو آنے والی نسل کےلیے پُروقار ہونے کا سبب بن سکیں، ورنہ نہ تو ہم تین میں رہیں گے اور نہ تیرہ میں۔