عوامی ورکرز پارٹی ’ملک میں نیا سماج پیدا کر سکتی ہے
گیارہ اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح کا آئین ساز اسمبلی سے وہ تاریخی خطاب جو ملک میں ریاستی سینسر شپ کی پہلی مثال بنا اس میں بانیِ پاکستان نے کرپشن اور بدعنوانی کے بارے میں خبردار کیا تھا اور یہ ہی مسئلہ بڑھتے بڑھتے آج پاناما پیپرز کی صورت میں قوم پر آشکار ہوا ہے۔‘
یہ بات عوامی ورکز پارٹی برطانیہ کی ایک تقریب میں پارٹی کے رہنما اور ممتاز قانون دان عابد حسن منٹو نے اپنی تقریر میں کہی جس میں انھوں نے پاکستان میں کمیونسٹ تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جو کمیونسٹ نظریات رکھنے والے افراد کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔
ممتاز قانون دان عابد حسن منٹو نے اپنی تقریر میں کہی جس میں انھوں نے پاکستان میں کمیونسٹ تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جو کمیونسٹ نظریات رکھنے والے افراد کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔
پاکستان کے قیام سے تین دن قبل قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ قائد اعظم نے واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی ہو گی اور مذہب کا ریاست کے امور سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ یہ تاثر عام ہے کہ بائیں بازو کے لوگ پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں درست نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک ایسے قائد کے خلاف کیسے ہو سکتے ہیں جو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں کھڑے ہو کر مذہب اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے ان خیلات کا اظہار کرتا ہے
انھوں نے کہا کہ تحریک پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور کیمونسٹ پارٹی نے باقاعدہ اپنے کارکنوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ مسلم لیگ کی حمایت کریں۔
انھوں نے کہا کہ تحریک پاکستان اس خطے میں بسنے والے 90 فیصد مسلمانوں کی حق خود ارادیت کی تحریک تھی اور کمیونسٹ پارٹی اصولی طور پر قوموں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتی ہے۔
پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے حقائق پر بات کرتے ہوئے عابد حسن منٹو نے کہا کہ ’ٹیکس چرانے اور بچانے کے لیے بنائی جانے والی تمام آف شور کمپنیاں ترقی یافتہ ملکوں میں قائم ہیں اور کوئی ایک بھی کمپنی کسی ترقی پذیر یا پسماندہ ملک میں قائم نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام خود اپنے آپ کو بے نقاب کر رہا ہے۔
پاکستان میں جاگیردارنہ نظام اور پیسے کی سیاست پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان جرگوں کے خلاف کم از کم پانچ فیصلے سنا چکی ہے لیکن اس کے باوجود جرگے ہوتے ہیں جس میں کم سن بچیوں کے بارے میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ جرگے ملک میں جاگیردارنہ نظام کا ہی حصہ ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے ورکروں کو انھوں نے خبردار کیا کہ اس نظام کو توڑنے کے لیے مستقل مزاجی اور استقامت کی ضرورت ہو گی۔ انھوں نے کہا ’جس سمت کا تعین پارٹی نے کیا ہے وہ بڑی دشوار گزار ہے اور اس پر چل کر ہی پاکستانی معاشرے کو جاگیردانہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان میں پیسے کی سیاست پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو تو چھوڑ دیں وکلاء تنظیموں کے انتخابات لڑنے کے لیے بھی کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ عابد حسن منٹو نے کہا کہ اس کے لیے لوگ کی سوچ کو بدلنا ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی سیاست پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو نوجوان عمران کا جھنڈا اٹھا کر کھڑے ہیں وہ ملک میں واقعی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’عمران خان ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کی تو بات کرتے ہیں اور تبدیلی لانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن انھیں یہ علم نہیں کہ یہ سب کچھ کیسے کیا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عمران نے یہ نہیں بتایا کہ وہ جاگیرداری کے خلاف کیا کریں گے، مزدوروں اور محنت کشوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے کیا کریں گے، معاشی انصاف کیسے قائم کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے چاروں صوبوں میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور وہ ہی ان تمام سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے۔
عابد حسن منٹو نے کہا کہ اگر عوامی ورکرز پارٹی عزم و ہمت سے آ گے بڑھتی رہی تو وہ پاکستان کے اندر نیا سماج پیدا کر سکتی ہے۔