آلو میاں مٹالو
آلو کی فصل ستمبر، اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے اور 70 دن کے بعد سے ہی اس کی برداشت شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ کسان اسے 95 دن تک بھی زمین میں رکھتے ہیں، تاکہ آلو کا وزن اور تعداد بڑھ سکے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں، خاص کر، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند دہائیوں سے اسے ایک اہم فصل کے طور پر کاشت کیا جا رہا ہے۔
پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں آلو ایک بنیادی فصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جوں جوں اس کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، اسے رکھنے کے لیے بنائے جانے والے کولڈسٹوریج بھی بڑھ رہے ہیں۔
ایک ایکڑ آلو کی کاشت قریباً 65 سے 70 ہزار پاکستانی روپوں میں مکمل ہو جاتی ہے اور اگر کہرا، بلائیٹ اور دیگر بیماریوں اور آفات سے محفوظ رہے تو اس ایکڑ سے تین سو من سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے۔
پچھلے دنوں ’کسان اتحاد ‘ کے تحت کسانوں نے لاہور میں احتجاج کیا اور اپنے مطالبات دہرائے۔ یہاں مجھے بھارتی پنجاب کے جاٹوں کا احتجاج یادآگیا اور ساتھ ہی ایک مصرع ’یہاں کی روٹی ویسی ہی چھوٹی،‘ بھی یاد آ گیا۔
جلد ہی یہ پاکستانی جاٹ بھی اپنے سرحد پار کے برادری والوں کی طرح اپنی کھاٹ لے کر واپس چلا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ پچھلی فصل کے غم میں وہ اگلی فصل کا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں کسان، زمیندار، وڈیرا اور جاگیردار نامی مخلوق کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان پہ بات اگلے کالموں میں۔ فی الحال صرف آلو پر بات کی جائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ فصل کبھی تو کسانوں کو مالا مال کر جاتی ہے اور کبھی کنگال؟
دیگر شعبوں کی طرح زراعت میں بھی دو مراحل ہوتے ہیں: ایک پیداوار اور دوسرا فروخت۔ ان دونوں مراحل میں کاشتکار کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے وہ بس آسمان کی طرف ہی دیکھ سکتا ہے۔
جس ملک میں 70 فی صدآبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہو وہاں ایک مربوط زرعی پالیسی کا نہ ہونا بہت ہی تعجب کی بات ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جب آلو کی فصل کاشت ہو رہی ہو، اسی وقت سے تخمینہ لگا لیا جائے کہ اس سال کتنی پیداوار متوقع ہے، ایک سرکاری قیمت مقرر کی جائے، اور ملکی ضروریات پوری ہونے کے بعد بچ رہنے والا آلو برآمد کر کے زرِ مبادلہ کمایا جائے۔
لیکن ہوتا یہ ہے کہ آلو کاشت کیا جاتا ہے اور اس کاشت میں اسے مشورہ اور مدد دینے والا مختلف کمپنیوں کا نمائندہ ہوتا ہے، جس کا مقصد ظاہر ہے اپنے ادارے کی مصنوعات بیچنا ہوتا ہے
اگر فصل اچھی ہو جائے تو قیمت گر جاتی ہے، بری ہو جائے تو چڑھ جاتی ہے، دونوں صورتوں میں کسان کا بھلا نہیں ہوتا، ناک کو ادھر سے پکڑو یا ادھر سے، بات تو ایک ہی رہتی ہے۔
اپنے ملک میں اچھی پیداوار ہونے کے باوجود، جب ذخیرہ اندوز آلو ذخیرہ کر لیتے ہیں تو کسان سے مشورہ کیے بغیر بھارت سے آلو منگا لیا جاتا ہے اور بقول آڑھتیوں کے پاکستانی آلو ’پِٹ‘ جاتا ہے۔
ذخیرہ اندوزوں کو یہ موقع اس لیے ملتا ہے کہ حکومت مسلسل کسی ضروری کام سے سو رہی ہے اور جاگنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جاگتی ہے تو الل ٹپ بدیس سے جنس منگوا کر بحران دور کر دیتی ہے اور یقیناً اس تجارت میں کسی کا ذاتی فائدہ تو ہوتا نہیں، چاہیں تو قسم اٹھوا لیں اور پھر بھی یقین نہیں آ تا توآپ قابلِ رحم ہیں، تشکیک کا مرض ہی برا ہے۔
اس غیر یقینی صورت ِ حال سے نہ صرف کاشت کار متاثر ہوتا ہے بلکہ پوری معیشت پر برا اثر پڑتا ہے۔
زرعی اصلاحات کے نام پر بڑے مزرعوں کو چھوٹے مزرعوں میں توڑنے اور زرعی ٹیکس کا شور مچانے والے کاغذی دانشور کبھی وقت نکال کے ایک مربوط زرعی پالیسی بنانے کا بھی سوچیں جس میں پانی کی کمی، سستی بجلی کی فراہمی، سبسڈائزڈ کیمیکل، زرعی آلات کی بلا ٹیکس درآمد اور دیگر مسائل جن میں کیمیائی زراعت کے انسانی صحت اور زمین پر دور رس اثرات جیسے مسائل پر غور کیا جائے۔
پنجاب کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ اگر دونوں ملک اپنی اپنی بدی ایک طرف رکھ کے مشرقی مغربی پنجاب اور کشمیر کو صرف ایک زرعی ریاست بنا دیں تو میرا دعویٰ ہے کہ پوری دنیا کو خوراک مہیا کی جا سکتی ہے۔
بہت ممکن ہے کہ یہاں میری جاٹوں والی موٹی عقل مجھے زیادہ ہی سجھا گئی ہو لیکن جب تک باریک سوچ رکھنے والے دانشور ایک مربوط اور دور رس پالیسی نہیں بنائیں گے یہ جاٹ بار بار اپنی کھاٹ لے کر صاحب لوگوں کے آرام میں مخل ہوتا رہے گا اور پوچھتا رہے گا کہ ’آلو میاں مٹالو کہاں گئے تھے؟‘