سنگ لاجورد افغان مسلح گروہوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ
افغانستان میں جاری جنگ کے لیے مالی وسائل ملک کی معدنی سے حاصل کیے جا رہے ہیں۔
لندن میں بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم گلوبل ویٹنس کے مطابق افغانستان میں طالبان سمیت مسلح گروپ نیلے رنگ کے قیمتی پتھر سنگ لاجورد کی غیر قانونی کان کنی سے سالانہ دو کروڑ ڈالر حاصل کرتے ہیں۔
تنظیم کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں سنگ لاجورد کو’ کنفلکٹ منرل یا متنازع معدن‘ قرار دیا گیا ہے۔
سنگ لاجورد کی زیادہ تر کانیں افغان صوبہ بدخشان میں واقع ہیں اور یہاں صدیوں سے اس قیمتی پتھر کو نکالا جاتا ہے اور اس سے زیورات تیار کیے جاتے ہیں۔
صوبہ بدخشان بدامنی سے بری طرح متاثر ہے اور یہاں موجود سنگ لاجورد کی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مقامی بااثر شخصیات، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور طالبان کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوتی ہیں۔
افغانستان میں کان کنی طالبان کے لیے منشیات کے بعد سرمایے کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ ماہرین کے مطابق افغانستان میں منشیات کی سالانہ تجارت تین ارب ڈالر تک ہے۔
افغانستان میں معدنیات اور پیٹرول مصنوعات کے اربوں ڈالر کے ذخائر موجود ہیں لیکن حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ان ذخائر کو نکال سکے جبکہ بین الاقوامی کمپنیاں ملک میں سکیورٹی کے مخدوش حالات کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
گلوبل ویٹنس کے مطابق اگر حکومت ان ذخائر کو نکالنا شروع کر دے تو سالانہ 2 ارب ڈالر تک کما سکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق صرف 2014 میں حکومت کو سنگ لاجورد کی غیر قانونی کان کنی سے ایک کروڑ 75 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ 2015 میں ایک کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق 2014 میں مسلح گروہوں نے سنگ لاجورد سے ایک کروڑ 99 لاکھ ڈالر کمائے جبکہ مقامی بااثر شخص عبدل المالک نے سنگ لاجورد کی غیر قانونی کان کنی کے لیے طالبان کو ساڑھے سات لاکھ ڈالر تحفظ کی مد میں ادا کیے۔ اسی طرح انھوں نے 2014 میں طالبان کو 40 لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔
اس پتھر کو’متنازع جوہر‘ قرار دینے کا مقصد ہے کہ اس کو فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی سے جنگ کے لیے سرمایہ حاصل ہوتا ہے اور جن ممالک سے یہ نکالا جاتا ہے وہاں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔
غالباً یہاں ’خونی ہیروں‘ کو زیادہ جانا جاتا ہے جو افریقی ممالک انگولا، کانگو اور لائبیریا سمیت دیگر ممالک سے نکالے جاتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو جنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
1988 میں اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت تجویز دی گئی تھی کہ ہیرے کو فروخت کرنے سے پہلے یہ اس حوالے سے معلومات حاصل کی جائیں کہ اسے کس خطے سے نکالا گیا تھا۔
افغانستان کے رواں برس کے شروع میں مستعفی ہونے والے وزیر معدنیات داؤد صبا کی جانب سے دی جانے والی تجویز کے تحت افغانستان کو سنگ لاجورد کو متنازع معدن قرار دیا جانا چاہیے اور حکومت پابند ہونی چاہیے کہ کانوں کو ضابط کار میں لائے اور ایک مرکزی اتھارٹی قائم کرے جو کہ نکالے گئے ہر پتھر کے بارے میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے۔
حکومتی قانون سازی یا کنٹرول کے بغیر معدنی وسائل حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔
گلوبل ویٹنس کے مطابق بدخشان میں سنگ لاجورد کی کانیں خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم سے منسلک گروہوں کے لیے’سٹرٹیجیک یا دفاعی ترجیح ‘ بنتے جا رہے ہیں۔
’جب تک افغان حکومت دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات نہیں کرتی سنگ لاجورد کی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی میں شدت آئے گی جس سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہو گا جبکہ ملک میں شدت پسندوں کو فروغ حاصل ہو گا۔‘
افغان حکام نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ حکومت نے 2015 سنگ لاجورد کی کانوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل نہ ہونے تک اس کی کان کنی پر پابندی عائد کی دی تھی لیکن کان کنی بغیر کسی خوف کے جاری رہی جس میں اطلاعات کے مطابق مقامی پولیس اور سیاست دان اس سے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔
گلوبل ویٹنس کا کہنا ہے کہ سنگِ لاجورد کی زیادہ مقدار چین برآمد کی جاتی ہے کیونکہ وہاں کے بازار میں یہ ایک قیمتی پتھر ہے اور اس سے طالبان کو مالی مدد ملتی ہے اور یہ افغانستان میں قیام امن کے لیے علاقائی سکیورٹی مذاکرات میں چینی حکومتی کے موقف سے متصادم ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرت کے لیے قائم چار رکنی گروپ میں چین بھی شامل ہے۔
دوسری جانب طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزداہ کی قیادت میں رواں برس تشدد کے واقعات میں اضافے کی توقع ہے۔
اگر افغان حکومت کوئلے، لوہے، تانبے اور سونے سمیت ملک کے وسیع معدنی وسائل کے تحفظ میں ناکام ہوتی ہے تو خدشہ ہے کہ یہ معدنی دولت مسلح گروہوں کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے جن کے اس کی فروخت سے بہت زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے سرحد پار بھی تعلقات ہیں۔
امریکی حکومت کے افغانستان میں تعمیرنو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی معدنیات اور ہائيڈور کاربن ملک کو آنے والے کئی دہائیوں تک اربوں ڈالر مہیا کر سکتے ہیں۔
تاہم اس رپورٹ میں افغان حکومت کی اس شعبے میں صلاحیت پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ معدنیات نکالنے کے لیے امریکہ کی جانب سے افغان حکومت کو دیے گئے تقریباً 50 کروڑ ڈالر ضائع بھی ہو سکتے ہیں۔