بلاگ

ادھورے خوابوں کی تعبیر: 23 مارچ

بلاگ: رضوانہ قائد

بہت دن بعد مینارِ پاکستان کو اتنا غور سے دیکھنے اور سوچنے کا موقع ملا۔ مٹی اور پتھر کا بنا یہ مینار، یادگار نہ بنتا اگر اس کو اسلام اور پاکستان کی نسبت نہ ملتی۔ بیسویں صدی کی سب سے بڑی اور روشن حقیقت، “پاکستان” کا یہ گواہ قومی یادگار کے طور پر سربلند اور قائم و دائم ہے۔ قیامِ پاکستان ایک ایسا خواب تھا جسے ہندوستان کے مسلمانوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کےلیے کرب ناک آزمائشوں سے گذرے اور بلآخر حصولِ تعبیر کا عہد اسی مقام پر باندھا گیا۔

میرے سامنے ستتر (77) سال قبل 23 مارچ 1940 کے لاہور کے (موجودہ) اقبال پارک کا منظر ہے۔ یہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس قائدِاعظم کی صدارت میں منعقد ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کےلیے ہندوستان کے طول و عرض سے مسلمانوں کے قافلے جوق درجوق آ رہے ہیں۔ یہ سب رنگ و نسل، علاقوں اور برادریوں، زبان اور بولیوں، مذہبی فرقوں اور معاشی و معاشرتی حیثیتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس تعلق سے وہ سب بندھے نظر آئے، ایک مقام پر ایک وقت میں جمع ہوئے، وہ اسلام کا پکا اور سچا رشتہ ہے۔ وہ اپنی ہر انفرادی شناخت کو پسِ پشت ڈال کر ایک کلمے لا الہٰ الا اللّٰہ کی پہچان کے ساتھ جمع ہیں۔ انہیں اپنی اسی اسلامی شناخت کی بقا کےلیے ہندوستان کے مخالف حالات میں آزادی کی لگن ہے۔ وہ ایک ایسے خطہ کے خواہش مند تھے جہاں آزادی کے ساتھ اسلامی طریقوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔ قراردادِپاکستان اسی مقصد کی جانب پیش قدمی ہے۔

اس قراداد میں کہا گیا کہ ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقوں کی حدبندی کر کے خودمختار آزاد مسلم ریاست کی شکل دی جائے۔ یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد کی حیثیت سے مسلمانوں کے اتفاقِ رائے کے ساتھ منظور کر لی جاتی ہے۔

کچھ لمحوں اور چند سطروں میں منظور ہو جانے والی یہ قرارداد دراصل مسلمانانِ ہند کی (1857 تا 1947) طویل جدوجہدِ آزادی کا نچوڑ ہے۔ مینارِ پاکستان کو کبھی اپنے عزیز اپنے محبوب کی حیثیت سے دیکھیں! یہ پرُشکوہ مینار آزادی کی داستان عجیب دلچسپ انداز میں اپنے اندر سموئے کھڑا ہے۔

اس کی شاندار بلندی، اس اسلامی نظریہ کی عظمت کا باوقار اظہار ہے جس کی بنیاد پر قراردادِ پاکستان عمل میں آئی۔ مینار کے کچھ قریب جائیں تو اس کو گھیرے ہوئے ایک گول سا چبوترا ہے۔ اس کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے۔ یہ اس جدوجہدِ آزادی کے سخت ترین حالت کی یاد دلاتے ہیں کہ جب قدم قدم پر مزاحمتیں تھیں۔ کچھ مزید آگے کی جانب چلیں تو اس سے اوپر والے چبوترے میں نسبتاََ ملائم پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ مسلمانوں کی منزلِ مقصود کی جانب پیش قدمی کی علامت ہے۔ پھر ذرا نظر اٹھا کے دیکھیں تو بلندی پر جاتے جاتے نفاست میں بھی اضافہ نظر آتا ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہے۔ عین اختتامی بلندی پر چمکنے والا گنبد ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کچھ اطراف میں نظر دوڑائیں تو قرارداد کا مکمل متن دیواروں میں نصب سِلوں پر درج نظر آتا ہے۔

مینارِ پاکستان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کی واحد یادگار ہے جو کسی اور یاد میں نہیں، بلکہ اسلامی نظریے کی یاد کےطور پر تعمیر کی گئی۔ حال ہی میں اس کی تزئین و آرائش نئے سِرے سے کر کے اس کو جدید تھیم پارک کے طور پر وسعت دی گئی۔ بظاہر اس اضافی زیبائش کے باعث عوام اور سیاحوں کی دلچسپی بڑھنے سے اس یادگار کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

مگر جانے کیوں؟ اس قیمتی ترین حُسن افزائی کے بعد بھی مینارِ پاکستان کا وقار گہری سنجیدگی میں ڈھل گیا۔ جانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس یادگار کے مسکن کے نام کو منٹو پارک سے اقبال پارک میں بدلنا دراصل پوری ایک تہذیب اور ایک نظریے کے فرق کا اظہار تھی۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ یہ مقام اقبال کے تصورِ پاکستان اور اسلامی نظریہ کی علم بردار قراردادِ پاکستان کی یاد کا ورثہ بن گیا۔ مینار کی فکرمندی اس ورثے کی بےتوقیری کے باعث ہے۔ یہ کیسی یاد ہے کہ یہاں آنے والے زائرین کو ذاتی اغراض و مقاصد سے ہی فرصت نہیں ملتی! سیر تفریح، کھیل تماشے، میلے ٹھیلے، جلسے اور ان میں سیاستدانوں کی اپنی اپنی جماعتوں کےلیے متعصبانہ سرگرمیاں۔ کیا ان ہمہ رنگ دلچسپیوں میں اس قرارداد کے عہد کے ساتھ وفا کا بھی کچھ پاس ہے؟

ہماری جدوجہدِ آزادی گواہ ہے کہ جب تک قراردادِ پاکستان کا مقصد نصب العین بنا رہا، تب تک عوام بھی ڈٹے رہے؛ اور قرارداد کے صرف سات سال بعد ہی آگ وخون کا دریا عبور کر کے پاکستان قائم ہوگیا۔

ہماری قومی بدقسمتی کہ پےدرپے اندرونی کمزوریوں اور بیرونی سازشوں کے باعث استحکامِ پاکستان میں پہلے جیسا جذبہ اور مرمٹنے کی لگن باقی نہ رہ سکی۔ قیام کے چند برس بعد ہی کلمہ توحید کی بنیاد پر متحد ہونے والے، زبان و نسل کی خاطر ملک کو کاٹ بیٹھے۔ اس میں بیرونی سازشیں اپنی جگہ، مگر بنیادی غلطی، اپنی اسلامی بنیاد کی مضبوطی کی فکر سے غفلت اور نتیجتاََ باہمی کمزوری تھی۔

مینارِ پاکستان دیکھ رہا ہے کہ وطنِ عزیز کا دو ٹکڑے ہو جانے والا وجود مسلسل انتشار و مسائل ہی کا شکار ہے۔ شریعتِ الٰہی کی رُو سے “عہد توڑنے والے، اللّٰہ کی رحمت سے دورپھینک دیے جاتے ہیں۔” ملکی صورتِ حال دیکھیں تو کیا ہمارا معاشرہ اللّٰہ کی رحمت سے محروم ہو کر اس کی پکڑ کے عذاب میں مبتلا نہیں؟ بالائی طبقے سے لے کر نچلے طبقے تک، قومی زندگی کا ہر پہلو “بدعنوانی” کا عنوان بن کر جگمگا رہا ہے۔ تعلیم، صحت، معاشرت، عدلیہ، پولیس اور ریاستی ادارے، ہر جگہ اصول و قوانین کتابوں میں مقید ہیں۔ رخصت ہونے والی ہر حکومت ملک کو مزید مسائل کا تحفہ دے کر جاتی ہے۔ جس قوت کی فوج اور ایٹمی طاقت کی صورت میں خطیر سرمائے سے نگہداشت کی جاتی ہے وہ نہ ملک کو ٹوٹنے سے بچا سکی نہ ہی عوام و ریاست کی حفاظت پوری طرح کر سکی۔

قراردادِ پاکستان کے وقت ایک کلمہ کی بنیاد پر سات سال میں قائم ہونے والا پاکستان ستر سال بعد بھی استحکام کا بھکاری ہے۔ 1940 کی قرارداد کی سچائی کی شہادت دینے والا مینارِ پاکستان آج اسی عہد سے قوم کی بےوفائی کا گواہ بھی ہے۔ سب اس مینار کے سامنے ہے کہ اس ملک کو قائم کرنے والے اسلامی نظریے کو کس کس طرح منہدم کیا جا رہا ہے۔ ایمان و یقین سے سرشار قوم کو ایک متذبذب اور منتشر ہجوم بنایا جا رہا ہے۔

مینارِ پاکستان یہ تمام ناانصافیاں، جرائم، لوٹ مار، سیاستدانوں کی بداعمالیاں دیکھ رہا ہے۔ وہ سوچ میں ہے کہ خواب کیوں ادھورے رہ گئے؟ اقبال کے شاہین تو ابھی زندہ ہیں جو اس کم روشن ماحول میں بھی امید کے جگنو ہیں۔ نئی نسل کے نئے شاہین یقیناََ قرارادِ پاکستان کے خوابوں کو جلد خوب صورت تعبیر دینے کی تیاری میں ہیں۔

اور پھر میری آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ نئی نسل سے اپنے خوابوں کی تعبیر کی امید پا کر مینارِپاکستان فخر سے اور بلند ہوگیا!

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close