قرارداد پاکستان کی جھلکیاں
بریگیڈیئر ڈاکٹر منظور احمد 1939ء کے اس زمانے میں کالج داخل ہوئے جب شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین ہونے والا تھا۔ اس لیے انہوں نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو ’’ان ایکشن‘‘ دیکھا اور قرارداد پاکستان کی پوری کارروائی میں شریک رہے۔ پھر انہوں نے کالج میں 1941ء کا پاکستان سیشن بھی دیکھا۔ یہاں ہم ان کی یادوں کے اس طربناک حصہ کو نذر قارئین کرتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی کا ایک گنج گراں سرمایہ سمجھتے تھے۔
’’نعمت اور شکر کے جذبات کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ میرے نزدیک 1940ء سے قبل ہی پاکستانی بن چکا تھا۔ اس قلبی کایا پلٹ کا سبب ہمارے سکول کے شفیق اور متقی ہیڈماسٹر دین محمد مرحوم کی تعلیم و تربیت تھی۔ مرحوم علامہ اقبال کے سیاسی افکار اور شعری کلام سے بہت متاثر تھے اور ان کی ترویج ان کی زندگی کا مشن تھا۔ ان کی اس رضا کارانہ تدریس (سکول میں انگریزی کے استاد تھے) سے اس ملی تصور و جذبہ کی تخم ریزی ہوئی جس کا اظہار علامہ اقبال کے اس ایمان افروز شعر سے ہوتا ہے
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
کشت طلباء میں یہ تخم ریزی آئندہ سالوں میں برگ و بار لائی وہ انہیں 23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز اجلاس میں منٹوپارک لے گئی۔ جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے اور جہاں آج مینار پاکستان اس عظیم قرارداد کی یاد دلا رہا ہے جس نے سات سال کی قلیل مدت میں ایک قوم کی تقدیر پلٹ دی۔
یہاں برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلم لیگی اکابرین اور کارکنان جمع ہوئے تھے۔ ان کی تعداد آج کل کے سیاسی اجتماع کے مقابلہ میں بوجوہ کم تھی۔ تقریباً ایک لاکھ ۔۔۔۔ میرا اندازہ تو اس سے بھی کم ہے لیکن بعض شرکاء جلسہ کا یہی خیال ہے۔ اب تو زمانہ کا مزاج ہی بدل گیا ہے۔ رنگ ہی کچھ اور ہے۔
دولت اور وسائل کے زور سے لاکھوں کی تعداد میں سامعین اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ رضاکارانہ جمع ہونے اور ناظرین کو اٹھا کے لے جانے کا فرق واضح ہے۔ پہلی صورت اخلاص کی مظہر ہے اور دوسری دولت اقتدار اور حرض و ہوس کی نمایاں عکاس۔
قرارداد پاکستان کے عظیم اجتماع کے بارے میں بریگیڈئر منظور یو رقم طراز ہیں ’’ اس تاریخی اجلاس کے لاہور میں انعقاد کے باعث میزبانی کی سعادت پنجاب مسلم لیگ کے حصہ میں آئی اور بہ تقاضائے روایت پنجاب کے وزیراعظم (صوبہ کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کہا جاتا تھا) سرسکندر حیات کو قرارداد لاہور (جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا تھا) پیش کرنا تھی۔ لیکن چند روز قبل ایک المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا اور وہ اس شرف سے محروم کردیئے گئے۔خاکساروں کے ایک جلوس پر لاہور میں پنجاب پولیس نے وحشیانہ انداز میں گولی چلائی اور جلوس کے بہت سے شرکاء بھون کر رکھ دیئے۔ اس تاریخ ساز اجلاس سے تین یوم قبل اس سفاکی اور بربریت کے مظاہرہ نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی اور لاہور کی فضا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگوں کے اذہان میں مختلف اندیشوں نے جنم لیا، قسم قسم کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ مثلاً یہ جلسہ کو روکنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس المیے کے بعد سرسکندر حیات خان اور ان کے رفقاء نے قائداعظم کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن قائد نے ماننے سے صاف انکار کردیا۔ اندریں حالات قرارداد پاکستان پیش کرنے کی سعادت مولوی اے کے فضل الحق کو نصیب ہوئی جو مجوزہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے بنگال کے وزیراعظم تھے۔شرکائے جلسہ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ مولوی فضل الحق جلسہ گاہ میں دیر سے پہنچے تھے۔ انہوں نے 23 مارچ کی صبح کو بذریعہ کلکتہ ایکسپریس لاہور پہنچنا تھا۔ لیکن ریل گاڑی چند گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی اور مولوی صاحب کو ریلوے اسٹیشن سے سیدھا جلسہ گاہ میں لایا گیا۔قرارداد انگریزی میں پیش کی گئی۔۔۔ جو آج بھی مینار پاکستان پر کندہ ہے۔ اس کا ترجمہ اپنے وقت کے عظیم اور کثیر الجہت (عظیم شاعر نثر نگار سیاست دان صحافی اور دینی سکالر) مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ مولانا کی تقریر کے ابتدائی جملے مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمانو! آج سے تم آزاد ہوگئے ہو۔ مولانا کی دور رس نگاہوں کی داد دینا پڑتی ہے کہ ان کی پیش گوئی نے سات سال بعد حقیقت کا روپ دھارا آپ نے اپنا ایک قطعہ بھی پڑھا تھا جس کے آخری دو مصرعے یوں تھے۔
تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے
ان کا مقصد اس حقیقت سے پردہ اٹھانا تھا کہ پاکستان میں اسلامی اقدار کا بالفضل خدا نفاذ ہوگا۔انگریز سرکار اس اجلاس کی کامیابی نہیں چاہتی تھی اس حوالے سے بریگیڈیر منظور لکھتے ہیں ’’منٹوپارک حکومت پنجاب کی تحویل میں تھا اس میں سیاسی اجتماع کے انعقاد کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ جس کے لیے ہوم سیکرٹری کو درخواست دی گئی۔ اس وقت ایک جابر انگریز افسر میکڈانلڈ سیکرٹری تھے۔ انہوں نے اعتراض کے ساتھ درخواست واپس کردی کہ قواعد کی رو سے یہ میدان سیاسی جلسہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ان دنوں پنجاب کے وڈیروں کی ایک جماعت یونیلسٹ پارٹی کی حکمرانی تھی۔ جسے انگریز کی داشتہ کہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ سرسکندر حیات کاغذ پر وزیراعظم ضرور تھے۔ دراصل بشمول دیگر مسلم اراکین اسمبلی ان کی وفاداری کا اولین مرکز فرنگی تھے۔ مسلم لیگ سے وابستگی سطحی اور نظریہ ضرورت کے تحت تھی۔
اس میں ایک استثنا قائداعظم کے مخلص رفیق ملک برکت علی مرحوم کی ذات تھی جو ان طرہ بازوں سے اکیلے 1944ء تک نبرد آزما رہے۔ جہاں تک یونینسٹ جاگیرداروں کا تعلق ہے ان پر تھوڑی ترمیم کے ساتھ علامہ کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے۔
ٹامی کے سائے میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں
ہے ڈیڑھ فٹ کا طرہ قومی نشان ہمارا
جولائی 1944ء میں 26 اراکین اسمبلی پر مشتمل مسلم لیگ پارٹی معرض وجود میں آئی۔ اس میں وہ ’’قومی درد‘‘ رکھنے والے رکن بھی شامل ہوئے جو آج اپنی یادداشتوں میں ملک برکت علی مرحوم پر تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔ میں نے ایک جلسہ میں ان ’’خالص اور وڈے‘‘ مسلم لیگی حضرات کا حدود اربعہ بیان کرکے یہ حساب بے باک کردیا تھا جس کے بعد یہ حضرات محتاط ہوگئے ہیں۔ یہ تو محض ایک جملہ معترضہ تھا۔
میں ذکر کررہا تھا جلسہ گاہ کی اجازت کا۔ چونکہ چند ماہ قبل 1940ء منٹو پارک میں اکالی دل (سکھوں کی معروف سیاسی جماعت) کا جلسہ ہوچکا تھا جس کا ابو سعید انور مرحوم کو علم تھا۔ اس لیے اس جلسہ کے حوالے سے دوبارہ درخواست بھیجی گئی اور منظور ہوئی۔
اکالی دل نے چونکہ جلسہ گاہ کا کرایہ مبلغ تین صد روپے دیا تھا اس لیے کچھ لیت و لعل کے بعد اسی کرایہ پر جانبین میں اتفاق ہوا۔ اس تاریخی اجلاس کی انتظامیہ کمیٹی کا دفتر ممدوٹ ولاکی ’’انیکسی‘‘ کو بنایا گیا۔ ابو سعید انور اس کمیٹی کے فعال رکن تھے۔ مسلسل دو ماہ تک ہر صبح امرتسر سے اپنے کرایہ پر بذریعہ گاڑی لاہور آتے اور شام کو اسی طرح واپسی ہوتی۔
دوپہر کا کھانا ڈیوس روڈ کے اڈہ تانگہ کے ایک نان چنا چھابڑی فروش سے کھاتے۔ البتہ عصر کی چائے کا بندوبست صاحب خانہ کا تھا۔ جلسہ کے لیے چالیس ہزار روپے کا چندہ جمع ہوا۔ اس میں سکندر حیات کی اپیل کا بھی دخل تھا جو انہوں نے ایک خط کی صورت میں تمام مسلم ممبران اسمبلی کو بھیجا۔ اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ ایک ہزار روپے سے زائد کسی صاحب کا چندہ نہیں تھا۔
بعد میں جو دعوے سننے میں آئے بے اصل ہیں۔ اجلاس کے کل اخراجات مبلغ ستائیس ہزار روپے تھے۔ اتنے بڑے اجتماع کے اس قدر کم اخراجات کو ماننے میں آج تو کیا اس دور کے مسلم لیگی عمائدین کو بھی تردد تھا۔ حتیٰ کہ آئندہ سال دسمبر 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ مدراس اجلاس کے منتظمین کے استفسار پر یہ رقم بتائی گئی تو انہوں نے ذہنی تحفظ کے ساتھ اسے تسلیم کرلیا لیکن بقول ابو سعید انور یہی حقیقت تھی۔ کارکنان و منتظمین نے تمام کام انتہائی رعایتی نرخوں پر کروائے۔
منتظمین کی ملی جذبہ سے درد مندانہ اپیل موثر ثابت ہوئی۔ خیمہ قنات، فرنیچر وغیرہ کے کنٹریکٹر نے مروجہ کرایہ سے نصف رقم وصول کی۔ اس کا نام تو یاد نہیں۔ کوئی غیر معروف ٹھیکیدار تھا خیال ہے کہ علی احمد کمپنی نے یہ خدمات سرانجام دیں۔ اس رائے کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ان کے پاس وہ تاریخی کرسی اب بھی موجود ہے جس کو حضرت قائداعظم کے بطور صدر جلسہ نشست کا شرف حاصل ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اہلیان لاہور کو اس اجلاس سے متعارف کروانے کے لیے ایک ہفتہ قبل باغ بیرون موچی دروازہ لاہور ایک تقریب ہوئی جس میں مقررین نے اس تاریخ ساز اجتماع کی غرض و غائیت پر روشنی ڈالی۔جلسہ گاہ کا جو نقشہ بریگیڈیئر صاحب کے ذہن میں محفوظ ہے۔
اس کے مطابق۔۔۔ ’’منٹو پارک میں مندوبین۔۔ اور کارکنان کی رہائش کے لیے ایک خیمہ بستی بنائی گئی۔ جس کی نگہداشت کے فرائض مسلم لیگ نیشنل گارڈ صوبہ سرحد کے ارکان نے سرانجام دیئے۔ خیمہ میں ڈاک خانہ، تار گھر اور سستے ہوٹل قائم کیے گئے۔ رات کی سردی سے بچاؤ کے لیے آگ اور گرم پانی کا معقول بندوبست تھا۔
نظریہ پاکستان کے متعلق اب بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آرہی ہیں جن کے احاطے کی یہاں گنجائش نہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ میٹرک کی اردو کے کورس کی کتاب میں پاکستان پر جو مضمون لکھا گیا ہے اس میں خاصا ابہام ہے۔ لیکن اگر آپ 1940ء کے اس تاریخی جلسے میں موجود ہوتے تو اس ماحول کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم کی اساس وحدت ایمانی ہے اور پاکستان میں قرآن کی حکمرانی ہو گی۔ یعنی نظریہ کے دو اجزاء ہیں پہلا جزو ہماری قومیت کی فکری اساس ہے اور دوسرا دستور العمل فکری اساس ہی عملی رویے کا تعین کرتی ہے۔
1941ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام اسلامیہ کالج لاہور میں ایک عظیم الشان کانفرنس ہوئی تھی جسے پاکستان سیشن کا نام دیا گیا۔میں اُس وقت کالج کا طالب علم تھا۔ جب 1941ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے پاکستان کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا لیکن بعدازاں قائداعظم کی ہدایت پر اسے سالانہ جلسے کا نام دیا گیا۔
مولانا عبدالستار نیازی اس تقریب کے روح رواں تھے۔ یکم مارچ 1941ء کو اسلامیہ کالج لاہور کی گراؤنڈ میں بعد نماز عشاء پہلی نشست ہوئی۔ مرزا عبدالحمید صدر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ مرزا صاحب آسٹریلین مسجد میں خطیب اور اسلامیہ کالج میں ایم اے عربی کے طالب علم تھے۔ بڑے اچھے مقرر تھے۔ خطبہ استقبالیہ کے بعد مولانا عبدالستار نیازی نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔
قیام پاکستان کے بعد بھی مولانا کی تقریر سننے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا لیکن وہ گھن گرج دیکھنے میں نہیں آئی جو تحریک کے ایام میں تھی۔ اس کا اندازہ اہل دل حضرات ہی کرسکتے ہیں۔ مولانا کی قلبی کیفیت اقبال کے اس شعر کے مصداق تھی۔
مرزعۂ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا
درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا
ایک سیل رواں تھا جو امڈا چلا آرہا تھا اور قرآن فروش نوابوں، بے ضمیر وڈیروں، نیشلسٹ علماء کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جا رہا تھا۔ مولانا کی اس دور کی تقاریر سے اب تک گوش لذت گیر ہیں۔ مولانا نے سرسکندر کو جو اسٹیج پر موجود تھے مخاطب کرکے کہا کہ میں اسے ٹکے کا آدمی نہیں سمجھتا۔ سنا ہے کہ سرسکندر کی آنکھیں تر ہوگئیں۔ آخر میں قائداعظم صرف چند منٹ کے لیے بولے۔ انہوں نے تقریر کا آغاز اس مشہور جملے سے کیا۔
”This is the month of March Let us march on”
’’یہ مارچ کا مہینہ ہے ، تم بھی مارچ کرتے ہوئے بڑھے چلو‘‘
قائداعظم اور پروفیسر ریاض شاہ
قائداعظم کے حوالے سے ایک بات جو ان کی وفات سے دو تین دن پہلے پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی ان سے ملاقات میں ہوئی۔ قائداعظمؒ نے ان سے فرمایا۔ تم جانتے ہوکہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے، تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کرسکتا تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خداﷺ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا قرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔
(پروفیسر ریاض کی کتاب ’’میرا قائد‘‘ سے اقتباس)
بیگم رعنا لیات علی خان کے وہ الفاظ جنہیں ’’ہیکٹر بولتھو‘‘ نے اپنی کتاب ’’کرییٹر آف پاکستان‘‘ میں شامل کیا ہے
’’اپنی بے پناہ دیانت داری کے علاوہ جناح میں دوسروں کو متاثر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ وہ جب کسی فرد یا مجمع کو متاثر کرنے کا تہیہ کرلیتے تو بالآخر اس پر چھا جاتے تھے۔ میں نے تو کئی مرتبہ انہیں انگلی اٹھا کر کسی سے یہ کہتے سنا ’’تم مہمل باتیں کررہے ہو اور خود نہیں سمجھتے کہ کیا کہہ رہے ہو‘‘ اس سرزنش پر ان کا مخاطب ہمیشہ چپ ہوکر بیٹھ جاتا۔ لیکن ان کے سحر کار انداز خطاب کی اصل شان اس وقت ظہور میں آتی جب وہ کسی بڑے مجمع میں تقریر کرتے۔ یہاں وہ اپنا یک چشمہ اکثر استعمال کرتے۔ پہلے وہ آنکھ پر لگاتے۔ پھر ہٹا کر بولنا شروع کرتے۔ ان کے اور ان کے سامعین کے درمیان غیر زبان کی بڑی اونچی دیوار حائل تھی کیوں کہ وہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے اور اکثر سامعین انگریزی سے بالکل ناواقف ہوتے لیکن اس کے باوجود لوگ شوق سے ان کی تقریر سنتے اور اس کا ایسا اثر ان پر ہوتا جیسے کسی نے جادو کردیا ہو۔
کردار کی عظمت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا یہی جادو تھا جس نے دو قومی نظریے کو بنیاد سے حقیقی ریاست کی جغرافیائی سچائی بنائے جانے تک کا سفر کروا دیا۔ نسلوں سے شکست خوردہ گروہ اس سچائی سے آنکھیں پھیر سکتا ہے نہ ہی اس تاریخی حقیقت کو مغالطے کی دھول سے اڑسکتا ہے۔‘‘
جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے والپرٹ کا خراج تحسین
’’بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کردے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔