میٹرو بس تو نظر آئے گی لیکن ریڈار نہیں‘
پاکستان کا شمار ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں کیا جاتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق یہاں حکومت اس مسئلے سے نمٹنے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔
پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے اور اس بار معمول سے زیادہ بارشوں کی پیشنگوئی کی جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر بارشیں زیادہ ہو گی تو سیلاب کا خطرہ بھی موجود رہے گا لیکن ملک میں سیلاب کی پیشگی اطلاعات دینے والے ریڈار کی حالت یہ ہے کہ محکمۂ موسمیات کے حکام خود بتاتے ہیں کہ حال ہی میں جاپان سے آنے والے ماہرین نے انھیں دیکھنے کے بعد حیرت کا اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے تصاویر کھینچی کہ ان کو آرکائیو میں رکھا جائے گا۔
پاکستان کے محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول نےبتایا کہ اس وقت ملک میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے سات ریڈار مختلف مقامات پر نصب ہیں لیکن یہ اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان ریڈارز کی اوسط عمر دس برس ہوتی ہے اور اس کے بعد ان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اس ضمن میں مالی مشکلات کی وجہ سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور بعض 20 سے 25 برس پرانے ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے جاپانی ماہرین نے بھی حال میں دورہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی تصاویر کھینچ کر ساتھ لے جائیں گے اور فیکٹریوں میں آرکائیو کے طور پر آویزاں کریں۔
ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق حال ہی میں اسلام آباد میں شدید آندھی کے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر وزیراعظم نے نوٹس لیا تھا اور اس کے بارے بریفنگ میں جب انھیں آگاہ کیا گیا کہ ٹیکنالوجی کا فقدان اس کی سب سے بڑی وجہ ہے تو اس پر انھیں یقین دہانی کرائی کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت فوری طور پر منگلا، سیالکوٹ اور لاہور میں ریڈارز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے حکومت پنجاب نے وسائل مہیا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اگر وسائل ملتے ہیں تو یہ دو برس میں مکمل ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ مردان میں وفاقی حکومت ریڈار کے لیے وسائل کے انتظامات کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہمیں پرانے ریڈار کو تبدیل کرنے کے علاوہ چترال اور گودار میں نئے ریڈارز کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینیئر ڈائریکٹر اعجاز احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان نے گذشتہ برسوں میں ہر طرح کی قدرتی آفت کسی نہ کسی شکل میں آئی ہے اور اس میں حکومت نے بظاہر اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے وزارتِ ماحولیات قائم اور اس کے ساتھ ضلع سطح تک ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام قائم کیا لیکن یہ جس حد تک موثر ہے اس پر سوالیہ نشان ہے۔
انھوں نے کہا کہ اعلیٰ سطح پر اس معاملے کو اس طرح سے تسلیم نہیں کیا جا رہا جس طرح سے ہونا چاہیے اور اسی وجہ سے سنجیدگی بھی نظر نہیں آتی ہے۔
عالمی ادارہ برائے موسمیات ڈبلیو ایم او کی تحقیقات کے بعد موسم کے بارے میں پیشگی اطلاعات دینے والے نظام پر ایک ڈالر خرچ کے بدلے میں 36 ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
اس پر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اعجاز احمد نے کہا کہ اس وقت ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت آفت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں درست اندازہ نہیں لگا سکی جس میں ایک سیلاب کی صورت میں وقتی نقصان ہے اور اس کے بعد طویل عرصے تک جاری ہونے والا ماحولیاتی نقصان ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں 12 برس پہلے صرف ماحولیات کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پانی کو ضائع کرنے، اسے گندا کرنے، کوڑا کرکٹ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانا، درختوں کی کٹائی سمیت دیگر عوامل کے نتیجے میں روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں ابھی قدرتی آفات شامل نہیں
انھوں نے کہا کہ آج بھی صورتحال ویسی یا زیادہ خراب ہو چکی ہے جس میں حکومت آج بھی موحولیات کے لیے مخص دو ارب سالانہ کا بجٹ مختص کرتے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول نے بھی کسی حد تک اس کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ماحولیات کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا لیکن اب آفات سر پر آ گئی ہیں اور یہ گرمی سردی، نہ بہار اور خزاں میں دم نہیں لینے دے رہے تو اب آفات سے نمٹنے اور موسمیات کے شعبے میں حکومت سرمایہ کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔
لیکن ماحولیات کے لیے کام کرنے والے سلمان رشید کے مطابق ہمارے ہاں سابق اور موجودہ حکومت کوشش کرتی ہے وہ کام کیا جائے جو سب کو نظر آئے جس میں میٹرو بنا دی لیکن موسمی آلات نہیں لگائے گی کیونکہ یہ عام لوگوں کو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔
’ کل کو سیلاب آتا ہے یا کوئی آفت تو مصیبت میں تو عوام کو پڑے گی۔‘