کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
ایک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
چندماہ قبل علم و ادب کےافق کے آفتاب ایسے غروب ہوئے کہ ادبی دنیا پرچھایا غم کا اندھیرا مٹنے کو نہیں، انہیں قد آور معتبر ادبی شخصیات میں جناب ندافاضلی کی وفات نے بھی سینوں کو جلا کر رکھ دیا۔ ندافاضلی سے میری پہلی اورآخری ملاقات عالمی اُردو مشاعرے ابوظہبی میں ہوئی۔ ان کی محبت، شفقت، عاجزی وانکساری، اخلاق، اخلاص کا ایسا سحراب تلک مجھ پر طاری ہے کہ ابوظہبی ایئرپورٹ پرآمدسے لے کرروانگی تک ان کے ساتھ گزرے ہرلمحات میرے لئے بھلانا ناممکن ہیں۔
دن سلیقے سے اُگا رات ٹھکانے سے رہی
دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی
بھارت کے شہر ممبئی میں اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کے سبب رختِ سفرباندھ کراِس دنیا کو خیرآباد کہہ گئے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ ان کااصل نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے ۔12 اکتوبر 1938 کوگوالیار میں ایک ادبی، کشمیری مسلم گھرانے میں پیدا ہوائے۔ باپ اوربھائی بھی شاعرتھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت والدین نے پاکستان ہجرت کرلی مگر ندافاضلی نے بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ مندروں میں گونجنے والے بھجن کی آواز نے انہیں شاعری کی طرف مائل کیا۔ اپنے روزگارکا آغازممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ دھرم یُگ اور بلنز میں اپنی قلمی ہنرمندیوں سے کیا۔ میر تقی میر اور مرزا اللہ خاں غالب ، میرا اور کبیر سے بہت متاثر تھے۔ لکھنے کا جنون تھا تو پڑھنے کا بے حد ذوق بھی رکھتے تھے اسی لئے انہوں ایلئیٹ، انتون چیخوف، نکاسا اورگگول بھی اپنے مطالعے میں شامل کیا۔ ان کے مجموعہ کلام میں ’’لفظوں کے پھول‘‘، ’’دنیا ایک کھلونا ہے‘‘، ’’سفر میں دھوپ تو ہوگی‘‘، ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘، ’’کھویا ہوا سا کچھ‘‘، ’’مورناچ‘‘ شامل ہیں۔’’دیواروں کے باہر‘‘، لفظوں کا پُل‘‘، ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘، شہر میرے ساتھ چل تو‘‘ بھی اُردو ادب میں حسین و انمول اضافے ہیں۔
اب کسی سے شکایت نہ رہی
جانے کس کس سے گلہ تھا پہلے
ندافاضلی قوم و ملت، انسانیت سمیت زندگی کے ہر پہلوؤں پر تفکر کرنے والے اوران میں دھنک کی مانند رنگ بھرنے والے ایک مایاناز معتبر شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ ندا فاضلی نے اعصاب شکن حالات کو جھیلنے کیلئے بڑی ہمت سے مظاہرہ کیا ہے جس کا عکس ان کی نئے پیرایوں کی شاعری میں خوب جھلکتا ہے۔ ندا فاضلی کا مزاج شاعری میں خود سپردگی سے ہٹ کروارفتگی اورعاجزانہ عناصر میں ڈھل کرباطنی جذبوں، تخلیقی قوتوں اورفکری توانائیوں سے مل قاری کی سماعتوں سے دل میں اترکر گہری سوچ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ان کے لفظوں سے بجھتی آنکھوں کی خوابیدہ فصیلوں پر ستارے جگمگاتے ہیں ان کے نازک احساسات ومثبت خیالات شگفتگی طبع سے خوب آراستہ ہیں۔ ان کا یہ شعر پڑھیئے۔
یہ مجسم لطیف جذبات فقط ایک بڑے شاعر ہی دکھا سکتا ہے۔
دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
ندافاضلی کے اشعار میں ربط ،روانی ، تازہ خیالی ، اور حسنِ ترتیب کا اعلی نمونے سے آپ بھی لطف اندوز ہو یئے۔
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
اِس سحر انگیز شعر سے محسوس ہوتا ہے کہ ندا فاضلی بہت محتاط مگر حساس طبع ،داخلی و باطنی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے عظیم شاعر تھے۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
ان کی تخلیقات کواصناف کے ساتھ ساتھ خیال آفرینی کی اہمیت سے بھی آشنا ہیں۔ایک دوحہ ملاحظہ کریں۔
سیدھا سادھا ڈاکیا جادو کرے ماہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اور مسکان
مجھ جیسا اک آدمی میرا ہی ہم نام
الٹا سیدھا وہ چلے مجھے کرے بد نام
بات مشاعرے کی تھی جو کہاں کی کہاں چل نکلی۔ برصغیر کے سینئر ترین شعراء میں شمار ندا فاضلی کو زحمت کلام دیتے ہیں اور یوں منتظمِ اعلی ظہورالاسلام جاوید کی دعوت پر عالمی اُردو مشاعرہ ابوظہبی امارات 2014 کے صدرِ مشاعرہ ندافاضلی کا شرکاء نے تالیوں کی گونج میں والہانہ استقبال کیا۔ میری یادوں کے خزانوں میں ان کے انمول موتیوں کی مانند چمکتے دھمکتے الفاظ اب بھی روشن ہیں کہ یہ شام خوبصورت، نیک نام، خوش کلام اور گلفام شام ہے یہ پاکستانی اور ہندوستانی لیڈروں کی تقریروں سے بدنام شام نہیں۔ یہ الفاظ کے احترام کی شام ہے۔ جہاں لفظ کا احترام کیا جاتا ہے ،وہاں عقل سے نہیں دل سے کام لیا جاتا ہے۔ جس پر سامعین نے خوب دل کھول کر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اِس شعر کے ساتھ
کبھی کسی کو مکمل جہان نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسمان نہیں ملتا
انہوں نے اپنے کئی اشعاراور قطعات بھی سماعتوں کی نذرکئے اورداد و تحسین کے حقدار بنے۔اپنے دوحوں کے علاوہ انہوں نے امیر خسرو کے بھی چند دوحے پیش کئے، تقریباً پنتالیس منٹس تک اپنے دلفریب کلام اور پرمغز گفتگو سے محفل لوٹتے رہے دل جیتتے رہے۔ چند لمحات کے لئے اپنے مرحوم والدِ محترم کی یادوں کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے کہا کہ جوں جوں میری عمر بڑھتی جا رہی ہے مجھے لگتا ہے میں اپنے اندرکم ہوتا جارہا ہوں اورمیرا باپ میرے اندر زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان کی غمِ جدائی میں لکھی ایک دلخراش نظم بعنوان’’تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا‘‘پیش کرکے سبھی کو آبدیدہ کر دیا ، اس نظم کے آخری مصرعے۔۔۔
تمہاری قبر میں تو ۔۔میں دفن ہوں ۔۔۔تم ،زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو ۔۔۔فاتحہ پڑھنے چلے آنا۔۔۔۔
میں شدتِ دردکا احساس توان کے مداحوں کو حقیقتاً آج ہوا ہے۔اِ س مشاعرے میں پیش کئے گئے کلام میں سے چند منتخب اشعارذوقِ قارئین کے خشک لبوں کو تر کرنے لئے پیش خدمت ہے۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
انکی ذہن و ذکاوت ،بصیرت اور ذوقِ سلیم کی آئینہ دارایک خوبصورت کمال غزل کے منتخب اشعار ملاحظہ کیجئے
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
باغوں میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اُڑایا جائے