بلاگ

ابو کیا آپ سن رہے ہیں

صبح دفتر آنے کے لیے ٹیوب میں بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان لڑکی میرے ساتھ والی سیٹ پر آ بیٹھی، بیگ سے ایک کارڈ اور پین نکالا اور لکھنے لگ گئی۔

ڈیئر ڈیڈ،

میں شاید اس فادرز ڈے پر گھر نہ آ سکوں اس لیے آپ کو کارڈ پر ہی وش کر رہی ہوں۔

’لو یو آلویز‘

یہ سب کچھ اس نے اتنا بڑا بڑا لکھا (شاید پورا کارڈ استعمال کرنا تھا) کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے یہ لکھی ہوئی پہلی اور اکلوتی لائن پڑھ لی۔

19 جون یعنی اتوار کو فادرز ڈے ہے اور برطانیہ اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ ہر سال منایا جاتا ہے، شاید دن مختلف ہوتے ہیں لیکن تہوار ایک، مگر برطانیہ میں اسے جون کے تیسرے اتوار کو مناتے ہیں۔

میرے والد نہیں ہیں، ان کی وفات کو 39 برس گزر چکے ہیں۔ ان کی وفات سے کچھ پہلے ضیا الحق نے بھٹو حکومت کو ختم کر کے 90 دن کا وعدہ کر کے اقتدار سنبھالا تھا

اس کے بعد کتنے والد جان سے گئے لیکن ضیا کا دور جاری رہا۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی کتنے باپ اور بیٹے ضیا اور اس کے حمایتی امریکیوں یا ان کے دشمن روسیوں کی پالیسیوں کا نشانہ بنتے گئے۔

پاکستان اور افغانستان کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ سب سے زیادہ پیار اور قربانیاں اور سب سے زیادہ نفرتیں اور دشمنیاں۔

پاکستان میں دہشتگردی کریں تو افغانستان چلے جائیں اور اگر وہاں لوگوں کو اڑائیں تو یہاں آ جائیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

آج کل پاکستان اور افغانستان میں تناؤ ہے، سرحد کی کسی لائن کا جھگڑا ہے، جو کسی نے کسی وقت بنائی اور اسے کوئی کبھی بھی نہیں مانتا۔ تو پھر کیا ہے۔ کاش میرے والد ہوتے تو میں ان سے پوچھتا۔

جتنی تھوڑی دیر بھی وہ ہمارے ساتھ رہے میں نے ان سے کچھ باتیں پوچھی بھی تھیں، کچھ سیکھا بھی تھا۔ ہیں تو بہت تھوڑی یادیں لیکن پھر بھی بہت ہیں۔

ان کے ساتھ شام کو بیٹھ کر پڑھنا، اختتام ہفتہ کو ماں کی ڈانٹ کے باوجود ان کا ہمیں رات گئے تک ٹی وی دیکھنے کی اجازت دینا، سنیما لے کر جانا اور مال روڈ کی سیر کرانا۔ یادوں کے لیے بہت ہے یہ۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب وہ ہمیں چھوڑ کر گئے۔ بس یک دم بیمار ہو

ئے اور اگلے ہی دن ختم۔

جب ان کی جان نکلی تو میں نے ان کے پاؤں پکڑے ہوئے تھے۔ امی نے کہا تھا کہ پاؤں کی مالش کرو اس سے ان کو سکون ملے گا۔ شاید زیادہ ہی سکون مل گیا۔ جان نکلتی ہے تو انسان ایک دن اپنے آپ کو کھینچتا ہے، یہ پہلے پتہ نہیں۔

اس کے بعد پروفیشنل زندگی میں آ کے مزید بہت کچھ سیکھا لیکن ہر مرحلے پر یہ ضرور احساس ہوا کہ کاش ابو اس چیز کے لیے مجھ تیار کرتے، انھوں نے مجھ سے پہلے بہت دنیا دیکھی تھی کاش مجھے اس کے متعلق بتاتے۔

انھوں نے تو کہا تھا کہ لبنان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے، مشرقِ وسطیٰ کا سویٹزرلینڈ لیکن میں نے تو اس میں خانہ جنگی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔

انھوں نے تو کہا تھا کہ شام ایک تہذیب کا نام ہے لیکن میں نے تو وہاں تہذیب اور انسانیت کی تباہی دیکھی ہے۔

میں نے پناہ کی تلاش میں تھکے ماندے باپوں کے ہاتھوں سے پھسل کر سمندر کی گہرائی میں ڈوبتے بچے دیکھے، اور بچوں کے سامنے ڈوبتے ماں، باپ۔

میرے والد نہیں ہیں لیکن کچھ دن پہلے کوئی کہہ رہا تھا کہ یورپ میں آنے والے اکثر بچوں کے والدین کا کوئی پتہ نہیں۔ مجھے ان کا شاید اپنے سے زیادہ دکھ ہے۔میرے پاس گھر تو تھا نہ۔

ابو آپ سن رہے ہیں ناں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close