کاش انسان واقعی ترقی کر جائے اور خود پر فتح پالے
سنا ہے اکبر بادشاہ نے اپنی فوج میں ایک دستہ قصائیوں کا بھی شامل کیا۔ خیال تھا کہ کشت و خون ان کے تو روز کے معمول میں شامل ہے، جو ہاتھ بغدہ چلاتے ہوئے نہیں کانپتے، تلوار تو ان کو پھول سی محسوس ہو گی۔
دروغ برگردنِ راوی، جب جنگ چھڑی تو قصائی ٹولہ ایسا پیٹھ پھیر کے بھاگا کہ تلواریں بھی وہیں بھول آیا۔
بازپرس پہ جواب دیا کہ ’حضور! ہم قصائی ہیں، خاندانی پیشہ ہے، رگ پٹھا دیکھ کر چھری چلاتے ہیں، وہاں تو دیوانہ وار تلوار چل رہی تھی، ہم سے یہ سب نہ ہو گا، ہمیں تو معاف ہی کیجیے۔‘
جانے یہ واقعہ اصل میں رونما ہوا یا نہیں ہوا، اور اگر ہوا بھی تو کیا اکبر ہی کے دور میں ہوا؟ ان سب باتوں سے قطع نظر حکمت کی بات یہ ہے کی انسانی خون بہانے کے لیے ایک خاص ذہنی کیفیت درکار ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ خون نہیں دیکھ پاتے، کچھ لوگ خون دیکھ کر دیوانگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بہت برس پہلے ہمارے پڑوس میں کچھ چور آئے، کتے کے بھونکنے پر انھوں نے دھمکانے کے لیے ساتھ لائے جانے والے چاقو سے کتے کا گلا کاٹ دیا۔ خون دیکھ کر ان پر ایسی دیوانگی سوار ہوئی کہ صحن میں سوئے ہوئے تمام اہلِ خانہ کو ذبح کر کے بغیر کچھ چرائے فرار ہو گئے۔ بعد ازاں گرفتار ہوئے اور سزا پائی۔
سوال یہ ہے کہ انسان قتل کرنے پر کب آمادہ ہوتا ہے؟
یہ سوال عمر متین کے 49 لوگوں کو قتل کرنے کے بعد میرے ذہن میں آیا۔ کیا یہ کوئی ذہنی کجی ہے یا جہد للبقا کا کوئی اصول؟
فوجیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟ ہتھیار کس لیے تیار کیے جاتے ہیں؟ حب الوطنی کیا ہے؟ قومی مفاد کے لیے لاکھوں لو گوں کو جنگ کی آگ میں دھکیل دینا کیا ہے؟ پنچایت بیٹھ کر فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں لڑکی کو قتل کر دیا جائے۔ ایسے ہی کچھ لوگ فیصلہ کرتے ہیں فلاں ملک پر حملہ کر دیا جائے کیونکہ وہاں جو ہو رہاہے وہ ہمارے مفاد کے خلاف ہے۔ اگر ہم نے انھیں نہ مارا تو وہ ہمیں مار دیں گے۔ ملکوں کے جھنڈے، سرحدیں،جنگی ترانے اور خوفناک ہتھیار۔ یہ سب کس لیے؟
قابیل نے ہابیل کو مارا تو اس کی وجہ علقمہ تھی۔ پھر یوں ہوا کہ علقمہ کو بھی مار ڈالنے والے انسان پیدا ہوئے اور ایک دن ایسا آیا کہ علقمہ نے ہی نہ ہابیل کو چھوڑا اور نہ قابیل کو۔
ملتان میں ایک عورت نے اپنے آشنا کو تیزاب سے جلا دیا۔ انگلستان میں ’بریٹن فرسٹ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک خاتون سیاستدان کو مار دیا گیا۔ گوجرانوالہ میں گھر والوں نے پسند کی شادی کرنے والی حاملہ بیٹی کا گلا کاٹ دیا اور اوکاڑہ میں بیٹی کو قتل کر دینے کی قسم کھا لی گئی۔
مغربی کنارے کے لوگوں پر پانی بند کر دیا گیا۔فرات کے کنارے آج بھی خون سے سرخ ہیں۔ دجلہ اور نیل کا پانی آج بھی ان لاکھوں کتابوں کی روشنائی سے سیاہ ہے، جن میں انسان کو یہ حکمت سکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ خون کا بہنا بھی ایک ’چین ری ایکشن ‘ ہے۔ ایک قتل، بہت سے اگلے قتال کی راہ کھولتا ہے۔
میں نے اپنے کسی ڈرامے میں ایک مکالمہ لکھا تھا کہ قتل کرنے کے لیے کسی علم و فن کی ضرورت نہیں ہوتی صرف جہالت درکار ہوتی ہے۔ عمر متین نے جو قتل کیے ان کا ذمہ دار امریکہ کی بندوقوں کی خرید و فروخت کے بارے میں نرم پالیسی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
جس طرح انسان کے جسم میں کئی ایسے اعضا ہیں جن کی اب اسے ضرورت نہیں، اور ارتقا کے عمل میں وہ ان سے پیچھا بھی نہ چھڑا سکا۔ اسی طرح کسی کا خون بہا کے تسکین حاصل کرنے کے فطرت بھی قابیل کی وہ فطرت ہے جو اپنے بھائی کا خون بہا کر راضی ہوتی ہے۔
اپنڈکس اور عقل داڑھ کی طرح جب یہ فطرت اپنی آئی پر آ جاتی ہے تو انسان کو مجبور کرتی ہے کہ مار، اس کو مار، اس کو مار، اس کو بھی مار۔ مار نہیں سکتا تو ڈرا، گالی دے، شلوار اچھال دے، دستار اتار دے۔
روایت ہے کہ ہندوستان کے ٹھگ اپنی شکار کو ٹھگ کے ایسے مارتے تھے کی خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہے۔ کیونکہ خون کے ایک ایک قطرے سے لاکھوں راکھشس پیدا ہوتے ہیں۔
کھلونا ہتھیار، جنگوں پر مبنی ویڈیو گیمز، وہ فلمیں جن میں انسان کو قتل کر کے نہایت سکون سے محبوبہ کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی جاتی ہے۔ خود کوایک عظیم اور درست طاقت ثابت کرنے کے لیے بنائی جانے والی فلمیں، تاریخی فلمیں جن میں کچھ برخود درست لوگ کچھ دوسرے بے خبر لوگوں کو کچر کچر کاٹتے چلے جاتے ہیں۔
بہتا ہوا خون، مرتے ہوئے لوگ اور ہر وقت چڑھی کمان کے سے بیان، تو مشرق، میں مغرب، تو کالا، میں گورا، میں کافر، میں مسلم،تو جاہل، میں عالم۔ یہ سب ہمیں کیا دیں گے؟ سیریئل کلر؟ جنگوں کے ماہر؟ موت کو کھیل سمجھنے والے لوگ؟
عالمی حالات نے آج فرد کی زندگی کو بہت متاثر کیا ہے۔ عمر متین کے جرم کو اب چاہے کسی بھی کھاتے میں ڈال دیا جائے لیکن یہ بات نہایت خوفناک ہے کہ ایک ایسا شخص جو اپنے جیسے ہی دوسرے انسانوں کے لیے اتنی نفرت لیے پھرتا تھا، 29 سال تک اسے کوئی نہ پہچان سکا۔
جانے اور بھی کتنے قاتل ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا سے، جنگ، نفرت اور محرومی دور کی جائے، اور یہ کام اتنا ہی دورازکار ہے جتنا سب انسانوں کے اپنڈکس نکال دینا۔ کاش انسان واقعی ترقی کر جائے اور خود پر فتح پالے۔