ہم نے ہمیشہ اسی طرح کی غلطیاں کی ہیں
جمعرات 23 جون کو برطانوی عوام یورپی یونین میں رہنے یا اس سے الگ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
دونوں دھڑے ایک دوسرے پر تند و تیز الزامات لگا رہے ہیں۔ لیکن یورپی یونین سے نکلنے یا ’لیو‘ مہم پر ان کے ’امیگریشن مخالف نظریات‘ کی وجہ سے خاصی تنقید کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ لیو مہم کو متعصب اور نسل پرست قرار دیا جا رہا ہے۔
سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ یورپی یونین میں رہنے کی مخالف جماعت یو کے انڈیپنڈنس کو بنایا جا رہا ہے، جن کی مہم کے مواد کو متعصبانہ اور نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے لیو مہم کے کئی حامی اب ان کی حمایت ترک کر چکے ہیں۔
انھی وجوہات کے باعث لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمان خالد محمود اور کنزرویٹو پارٹی کی سینیئر رہنما سعیدہ وارثی نے یورپی یونین کو چھوڑنے کی مہم سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔
یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی برطانوی وزیر لارڈ طارق احمد کا کہنا تھا کہ لیو مہم میں کچھ لوگوں نے ایسے بیانات دیے ہیں جو نسل پرستانہ ہیں
ان کے بقول دہشت گردی کے واقعات کو بےقابو امیگریشن کا نتیجہ قرار دیا گیا جس کا مقصد صرف لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا تھا۔
لیکن نسل پرستی اور تعصب کے ان الزامات پر خود لیو مہم کا کیا موقف ہے؟
انھی سوالات پر یورپی یونین سے نکلنے کی حامی مہم کے سینئیر رہنما اور برطانوی وزیر برائے بارے خارجہ آفس جیمز ڈڈرج نے
کہا کہ ’اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ بڑے پیمانے پر امیگریشن ایک مسئلہ ہے، اور ہم یہ کیسے برداشت کریں کہ ترکی اگر یورپی یونین کا رکن بن جائے اور اس کی 7.6 کروڑ آبادی کو برطانیہ آنے کی اجازت مل جائے؟ اور وہ یہاں آ کر ہمارے سکول اور ہسپتالوں پر بوجھ بنیں؟
برطانوی وزیر سے یہی سوال دوسرے انداز میں کیا تو ان کا جواب یہی تھا کہ یورپی یونین میں آگے جا کر پانچ ممالک شامل ہوں گے تو ان ممالک کے لوگ اگر برطانیہ کا رخ کریں گے تو نقصان برطانیہ کا ہی ہو گا۔ ان کا بقول ’ہم نے ہمیشہ اسی طرح کی غلطیاں کی ہیں۔‘ اور اسے لیے وہ پرانی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے۔
جیمز ڈڈرج سے دو بار یہ سوال اسی لیے پوچھا گیا کہ شاید وہ اپنی مہم کے کچھ لوگوں پر لگنے والے ان الزامات کی وضاحت کریں گے جن میں مسلمانوں کی مائیگریشن کو شدت پسندی میں اضافے سے جوڑا گیا اور یا شامی پناہ گزینوں کے بارے میں یو کے انڈیپنڈنس پارٹی کے اس ’متعصبانہ‘ پوسٹر کی وضاحت کریں گے جس کے باعث یورپ سے نکلنے کی کمپین میں شامل واحد سینئیر مسلمان اور خاتون سیاستدان سعیدہ وارثی خود کو اس مہم سے الگ کرنے پر مجبور ہوئیں۔
لیکن جیمز کا جواب امیگریشن کی مخالفت پر شروع اور اسی پر ختم ہوا۔