ایک قوال کی موت
مجھے نہیں معلوم کہ صابری خاندان کے ہونہار چشم و چراغ امجد فرید صابری کو کیوں سرِ عام کراچی میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ آج کل کے پاکستان میں ’لا پلا اور پلا‘، ’میں تو دیوانی‘، ’ہم پنج تنی‘ یا ’علی مولا علی‘ جیسی صوفیانہ قوالیاں گانا موت کو دعوت دینا ہی ہے۔
میں نے یہ قوالیاں امجد صابری سے نہیں بلکہ ان کے والد اور صابری خاندان کے سربرہ غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری سے سنی تھیں۔
امجد تو بس ان کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے تھے لیکن چند نامعلوم گولیوں نے اس روایت کا بھی دم نکال لیا۔
پاکستان، خصوصاً کراچی میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ گولی کیوں اور کس نے ماری۔
بہت سے نام ہیں جنھیں یہاں گنوایا جا سکتا ہے، بہت سی ہستیاں ہیں جو نامعلوم گولیوں اور بموں کا نشانہ بنیں لیکن میں یہاں وہ لمبی فہرست نہیں لکھوں گا۔
میں تو یہاں اس جگہ کل قتل کیے جانے والے اس احمدی ڈاکٹر خلیق احمد کا ذکر کروں گا جس کے متعلق شاید دوبارہ کہیں نہ لکھا جائے۔ یہ نامعلوم بس ایسے ہی مارے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر کو رات نو بجے اس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے کلینک پر موجود تھے۔ ’نامعلوم مسلح افراد نے اندر داخل ہو کر انھیں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔‘
سنہ 2003 میں جب میں جنوبی افریقہ گیا تو اس وقت مقبول صابری وہاں مقیم تھے، میں نے ان سے انٹرویو کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وقت طے نہ پا سکا جس کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا۔
2011 میں ان کا دل کے دورے کی وجہ سے انقتقال ہو گیا۔ ان کے بڑے بھائی اور امجد کے والد غلام فرید صابری کا بھی 1994 میں دل کے دورے سے انتقال ہوا تھا تھا۔
ان دونوں کو ان کے والد کے پہلو میں کراچی میں ان کے آبائی قبرستان دفنایا گیا، شاید امجد کو بھی وہیں دفن کیا جائے گا۔ کراچی کے قبرستان تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔
یوں تو امجد اپنے والد اور چچا کے مقام پر ابھی نہیں پہنچے تھے لیکن ان میں وہ تجلی یا کسک ضرور موجود تھی جو ان کے خاندان کا خاصا رہی ہے۔
شادی کی محفل ہو یا ٹی وی کا پروگرام، کوک سٹوڈیو کا دعوت نامہ ہو یا کسی نجی محفل میں گانا وہ ہر وقت اپنے خاندان کے منفرد سٹائل کو آگے بڑھانے کے لیے پیش پیش رہتے تھے۔
شاید ان کی یہی خندہ پیشانی تھی جو ان کے لیے 2014 میں پریشانی کا باعث بھی بنی جب انھوں نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل میں ایک قوالی گائی جسے بعد میں توہین مذہب کہا گیا اور یہ تنازع کافی عرصہ جاری رہا۔
امجد اس تنازعے سے تو بچ نکلے لیکن وہ کراچی کے ان ’نامعلوموں‘ کی گولی سے نہ بچ سکے جو ہر اس زندہ شخص پر گھات لگائے بیٹھے ہیں جو اس گھٹن کے ماحول میں تھوڑی سی بھی ٹھنڈی ہوا دینا چاہتا ہے یا اس کا متمنی ہے۔