برطانوی نوجوانوں کی دنیا چھوٹی ہو گئی
برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے تاریخی فیصلے کے بعد کے اثرات پر یہاں بسنے والے پاکستانیوں کی سوچ کیا ہے؟ اس فیصلے کے پاکستانی تارکین وطن پر کیا اچھے یا برے اثرات ہو سکتے ہیں؟
انھی سوالات پر بحث کے لیےفیس بک لائیو کا انعقاد کیا جس میں پاکستانی نژاد مینیجمنٹ کنسلٹنٹ صالحہ حق اور انسانی حقوق اور امیگریشن کے وکیل بیرسٹر اسلام وردگ نے بھی حصہ لیا
برطانیہ کی 18 سے 24 سال کی عمر تک کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی نے اس ریفرینڈم میں برطانیہ کی یورپی یونین ہی میں رہنے کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا ہے۔
اب جب کہ ریفرینڈم کا فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف آیا ہے تو ان نوجوانوں کے کیا احساسات ہوں گے، کیونکہ انھوں نے تو اپنا مستقبل ایک ایسے ملک میں گزارنا ہے جو یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا؟
صالحہ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں پر اس فیصلے کا زیادہ اثر پڑے گا کیونکہ انھوں نے اس فیصلے کے ساتھ رہنا ہے او اب ان کے لیے دنیا چھوٹی ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں یہ خوف ہے کہ ملک کی معاشی صورتِ حال خرابی کی طرف بھی جا سکتی ہے۔
بیرسٹر اسلام وردگ کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام کو معیشت سے زیادہ بے قابو امیگریشن سے مسئلہ دیپیش تھا اور اس کا اظہار انہوں نے اس ریفرنڈم میں کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد پاکستان اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک سے برطانیہ آنے والی امیگریشن میں اضافے کا امکان ہے۔