بلاگ

شام کی جنگ اور مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال

تحریر: عزادار نقوی

شام مسلسل سات سال سے داخلی خانہ جنگی کا شکار ہے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، لاکھوں افراد زخمی ہو چکے ہیں اور نصف سے زیادہ شامی عوام دوسرے ممالک میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ شام کا بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا اور عوام پینے کے صاف پانی اور خوراک تک سے محروم ہیں۔ یہ جنگ شامی عوام کے چند مہربان ممالک نے ان کی بقول ان کو ایک ڈکٹیٹر سے نجات دلانے کے لئے شروع کی جس میں ناصرف ان کی دام درھم سخن امداد کے بلکہ ان کے لئے خلافت کا احیاء کرنے کے لئے ہزاروں امپوٹڈ و رینٹڈ جلاد صفت جنگجؤں کی سہولت بھی فراہم کی۔ جنھوں نے فقط شام پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ عراق کے بھی وسیع علاقے پر قبضہ کر کے اپنے مقبوضات و مفتوحات میں قائم شدہ خلافت سے وہاں لوگوں کے لئے سوھان روح کا سامان فراہم کیا بلکہ پوری دنیا میں اسلام و مسلمین کی بدنامی کا باعث بنے۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ افغانستان، پاکستان، ایران، سعودی عرب، یمن، مصر و افریقی ممالک تک جاری رہتا اگر بیچ میں کچھ ایرانی و لبنانی و عراقی اور روسی عوام اس جنگ میں داخل نہ ہوجاتے اور ان کی مقبوضات و مفتوحات کو ان کے تسلط سے نکال کر اور ختم کر کے انہیں انڈرگراؤنڈ چھپنے پر مجبور نہ کرتے۔

اس تمام خانہ جنگی سے شامی عوام کو ہلاکتوں و تباہی وبربادی و دربدری کے کچھ نہیں ملا۔ ایسے میں 14اپریل کو امریکا بھادر نے اپنے دو اتحادی ممالک برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ملکر اس تباہ شدہ ملک پر مزید مہربانی سے گریز نہیں کیا بلکہ صاف پانی و خوراک اور دوا و دارو سے محروم ملک پر کئی سو ملین ڈالرکے میزائل برسا کر اس مظلوم عوام کے ساتھ اظھار یکجہتی و اپنی نصرت کا اعلان فرمایا ہے اور ان کو احساس دلایا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ پر مشتمل اس نظام کے خلاف آپ اکیلے نہیں بلکہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کا فایدہ بیچاری شامی عوام کو ہوا یا نہیں لیکن حملہ آور ممالک کی عوام کے ٹیکس یا عرب ممالک کے پیسے سے اسلحہ ساز کارخانوں کے مالکوں کو ضرور ہوا ہے اور ان کی جیبیں بھرنے بلکہ بھر کر پھٹنے کا باعث ضرور بنا ہے۔

اس حملے کے بارے میں امریکا بھادر و برطانوی و فرانسوی سرکار کا کہنا ہے کہ یہ حملہ شامی رژیم اور اس کے حامی روس و ایران کے لئے غافل کنندہ و خلاف توقع تھا اگرچہ جہاں جہاں میزائل لگے ان ٹھکانوں کو پہلے سے خالی کرا لیا گیا تھا لہذا کوئی خاص جانی و مالی نقصان نہیں ہوا ۔ اسی وجہ سے ان حالات کے بعد شام کے مدافع و حمایتی ممالک نے زبانی و کلامی مذمت اور ہلکلی پھلکی دھمکی اب کی مار تو دیکھوں پر اکتفاء کرلیا ۔
سوال یہ ہے کہ اس کئی سو ملین ڈالر کے شامی عوام کے لئے بے ثمر نسخے کا امریکی سرکار بھادر ٹرامپ اور ان کے دو یارو مددگار ممالک کو کیا فائدہ ہوا ہے
1: ان حملات سے جہاں سرکار بھادر ٹرامپ نے روس کی حمایت سے الیکشن جیتنے کے دھبے کو دھونے کی کوشش کی وہیں برطانوی و فرانسوی وزراء اعظم نے اپنے ممالک میں موجودہ بحرانوں سے عوام و دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے ۔
2: امریکہ نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی چوہدراہٹ میرے پاس ہے جو بھی ہمارے خلاف چلے گا اس کا انجام ایسے ہی کریں گے ۔
3 : امریکی سرکار جو ایک طرف ایران فوبیا سے عرب ممالک کو کئی عشروں سے ڈرا کر ان سے سستا تیل لے رہا تھا دوسری طرف ان سے آنکھ بچا کر ایران سے مذاکرات کی پینگیں ڈال رہا تھا۔ یہ امریکی کام عرب ممالک کو ایک آنکھ نہ بھایا جس پر انہوں نے امریکا کے اس ہرجائی پن کا گلہ شکوہ کیا تو سرکار نے انہیں مزید ایران فوبیا میں مبتلا کر کے اپنی اسلحہ فیکٹریوں کی چمنیوں کو روشن رکھنے کے لئے کئی سو بلین ڈالر کا اسلحہ بیچنے کے علاوہ کئی سو بلین ڈالر کے نذرانے وصول کئے۔

اس کے باوجود عرب ممالک نا صرف اس پر مطمئن نہیں ہو رہے تھے بلکہ عراق و شام پر داعش کے خاتمے میں ایران کے اہم کردار پر سیخ پا تھے اور امریکی بھائی جان سے ایرانی اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے خواہاں تھے ۔ انکل سام اور اس کے یاروں نے عرب ممالک کو چپ کرانے کے لئے اس حملے کا لالی پاپ ان کو تھما کر ان کو کچھ دیر اور چپ رہنے پر راضی کر لیا ہے۔

3:ترکی جو ابتداء میں امپورٹڈ و رینٹڈ جھادیوں کو شام میں داخلے کا دروازہ و سہولیات فراہم کرتا تھا ۔ لیکن جب حکمران طبقے کے خلاف ناکام بغاوت کے پیچھے انکل سام کے ہاتھ دیکھے تو اس نے اپنا قبلہ روس کی طرف موڑنا شروع کر دیا تھا۔ اسرائیل بھی مسلسل بشار حکومت کی ہاتھ سے نکلے علاقوں پر دوبارہ اس کی رٹ قائم ہونے سے خائف ہے ۔ اس حملے سے جہاں اسرائیل کی تشفی دل کا سامان فراہم کیا گیا ہے وہیں ترکی کوبھی اپنا پرانا قبلہ باقی رکھنے کا سگنل دیا گیا ہے۔

4:اس حملے کے ذریعے غیر مستقیم طور پر دیگر امریکی مخالف ممالک ایران و شمالی کوریا اور بعض مالک جن سے امریکا ناراض ہے جیسے پاکستان ان کے لئے یہ پیغام ہے کہ آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے ہم اقوام متحدہ و بین الاقوامی برادری کی حمایت کے محتاج نہیں ہیں بلکہ جب اور جس پر چاہیں ہم حملہ کر سکتے ہیں ۔
ان حملات میں جہاں انکل سام اور ان کے حامیوں نے اپنے مفاد سمیٹے ہیں وہیں انھوں نے اپنے حریف روس کو بھی محروم نہیں رکھا، روس کے جدید ترین ایس 400 دفاعی میزایل سسٹم اور شام میں ایس 35 طیاروں کے ہوتے ہوئے یہ حملہ ہو گیا اور مقابل میں حملہ آوروں کا ذرا برابر بھی نقصان نہیں ہوا اگرچہ شامی و روسی نمائندگان ستر کے قریب میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی بات کر رہے ہیں اور ٹرمپ اس بات پر مصر ہے کہ کوئی میزائل بھی راستے میں تباہ نہیں کیا جا سکا۔ ایک سو دس کے قریب برسائے گئے میزائلوں میں سے اگر ستر راستے میں فضا میں تباہ ہوئے ہیں تو تیس سے چالیس تک تو پھر بھی اپنےھدف پر لگے ہیں جو جدید ایس 400 روسی دفاعی میزائل سسٹم کی ناکامی کی کسی حد تک دلیل ہے۔

اس حملے پر شام کے اتحادی ممالک نے صرف زبانی کلامی مذمت پر اکتفاء کیا جو بہت مشکوک ہے اور کوئی اس کی طرف نہ متوجہ ہے نہ غور کر رہا ہے۔ اگرچہ ایران اور حزب الله فورا ری ایکشن نہیں کیا کرتے بلکہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر غیر متوقع وقت و موقع پر جواب کی تاک میں رہتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران فوبیا اور شامی کھڑاک سے جہاں عربوں کی جیبوں کو خالی کرنے کا کام جاری رکھا ہے، وہیں روس نے ایران سے مالی فوائد کی خاطر اس طول دے رکھا ہے اور اس کی جیبیں خالی کرنے کے درپے ہے۔

اگر بشار مخالفین کے مالی و جنگی ضروریات عرب ممالک کی نوازشات سے پوری ہو رہی ہیں تو روس بھی خدا واسطے اور محض شامی حکومت کی ہمدردی میں نہیں کر رہا بلکہ اس کی پوری قیمت ایران سے وصول کر رہا ہے، اس حملے کے نتیجے میں روس اپنی قیمت اور بڑھائے گا شام کو بچانے کی خاطر جس کو ایران ضرور ادا کرے گا ۔

اس حملے اور اس جیسے متوقع حملات کے نتیجے میں دیگر ممالک احساس خطر کریں گے جو امریکی اسلحہ و طیارے نہیں خرید سکتے یا جن کو امریکا اور اس کے اتحادی اسلحہ و طیارے فروخت نہیں کرتے وہ سب بڑے بڑے معاہدے روس سے کریں گے اور اس کی جیبیں بھریں گے ۔لہذا یہ حملہ کر کے امریکا نے روس پر بھی احسان کیا ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی اور روس اگرچہ ابھی اپنے مفادات کی خاطر اس جنگ کو طول دے کر مالی فوائد و ثمرات حاصل کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو جب چاہیں لپیٹ و سمیٹ سکتے ہیں ۔ ان دھکتے انگاروں کو اگر بجھایا نہ گیا تو اس کے بھڑکتے شعلے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیں گے اور تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے گا جس کا ایندھن صرف شام ہی نہیں پوری دنیا بنے گی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close