ہندوستانی بادشاہ اور رعایا کا حال
فرانسس برنیئر 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک یہاں رہا۔ یہ شاہ جہاں کا آخری زمانہ تھا۔ فرانس کا رہنے والا برنیئر طبی ماہر تھا۔ یہ مختلف امرا اور شاہی خاندان تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گیا اور یوں اسے مغل دربار، شاہی خاندان، مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اورنگ زیب کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔اس نے اورنگ زیب عالم گیر کی اپنے تینوں بھائیوں دارا شکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے دارا شکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا۔ اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ فرانسس برنیئر نے اپنے وطن واپس جاکر ہندوستان کا سفر نامہ تحریر کیا۔ یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس سے شایع ہوا۔فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں لکھاکہ ہندوستان میں مڈل کلاس طبقہ سرے سے موجود نہیں، ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امرا محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی۔ جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزرا، گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔
لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے، مگر آپ کو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چناں چہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے، ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں، لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے، چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے، مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے۔ لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے۔فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا، یہ کاری گر ہیں لیکن کاری گری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے، لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فن کاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوش حال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے، یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں، لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار، بادشاہ اور امرا سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھے چھے ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امرا اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔