ہزارہ پہ ظلم کیوں، قاتل کون، ذمہ دار کون، ڈاکٹر رشید احمد کی تلخ تحریر
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے درجنوں ارکان نے ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کئی روز سے جو دھرنا دے ر کھا تھا‘ اسے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس یقین دہانی کے بعد کہ آئندہ ہزارہ برادری کے ارکان کا مکمل تحفظ کیا جائے گا اور ٹارگٹ کلنگ کے جرم میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کوئٹہ پہنچے تھے اور دھرنے کے شرکا سے بات چیت کے ذریعے اسے ختم کروانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن دھرنے میں شریک ہزارہ برادری نے احسن اقبال کی یقین دہانیوں کو مسترد کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ آرمی چیف دھرنے میں آئیں اور شرکا کو ہزارہ برادری کے تحفظ کا یقین دلائیں‘ صرف اسی صورت میں دھرنا ختم ہو گا۔ آرمی چیف خود تو دھرنے میں تشریف نہیں لائے البتہ انہوں نے ہزارہ برادری کے عمائدین سے ملاقات کرکے تحفظ کا یقین دلایا۔ اس میٹنگ میں‘ جس کی صدارت آرمی چیف کر رہے تھے، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی موجود تھے۔ ہزارہ برادری کے ارکان نے دھرنا صوبائی اسمبلی کے سامنے دے رکھا تھا‘ جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن اور رکن بلوچستان بار کونسل جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے احتجاجاً ہڑتال کر رکھی تھی۔ دھرنا ختم کرنے کے ساتھ ہی جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی بھوک ہڑتال بھی ختم کر دی۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت کسی بھی ریاست کی بنیادی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے اور ریاست پاکستان نے آئین کے مطابق یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو سونپ رکھی ہے۔ اس لئے بلوچستان میں اگر لاکھوں افراد پر مشتمل ہزارہ برادری کے ارکان کی نہ جان محفوظ ہے اور نہ مال تو اس کی باز پرس سب سے پہلے صوبائی حکومت یا حکومتوں سے ہونی چاہئے کہ وہ اس وقت اس اہم آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کیوں ناکام رہیں؟ لیکن اس ضمن میں وفاقی حکومت کو بھی بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ صوبائی پولیس کے سربراہ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بلوچستان کے 34 میں سے 80 فیصد اضلاع، ضلعی پولیس آفیسر سے خالی ہیں۔ یہی حال اس سے اوپر کی سطح کے پولیس افسروں یعنی ڈی آئی جیز کا ہے، جہاں آدھی سے زیادہ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ آئی جی پولیس کے مطابق ان آسامیوں کو پُر کرنے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو بارہا درخواست کی گئی‘ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد امن و امان بحال کرنے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈال دی گئی ہے لیکن اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے صوبوں کو ضروری وسائل اور استعداد مہیا نہیں کی گئی۔ بلوچستان میں پولیس کی زبوں حالی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن صوبے میں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی فورسز مثلاً ایف سی بھی تو موجود ہے اور ان کی موجودگی کافی بھاری ہے۔ جا بجا چیک پوسٹوں پر ان کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبے میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داری ایف سی نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ تقریباً نصف دہائی سے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، حالانکہ اس کے پیچھے کارفرما ہاتھ کی کئی مرتبہ نشاندہی کی جا چکی ہے لیکن نہ صرف ہر صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت بھی‘ اس جانب کوئی موثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہیں اور حالات یہ ہیں کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے گھر سے باہر کہیں بھی محفوظ نہیں۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اپنی دکانوں پر بیٹھے افراد کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو جانے والی طالبات اور طلبا پر حملے کئے گئے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار نے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بالکل درست فرمایا کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے گھر سے باہر نکلنا محال ہو گیا ہے، ان کے بچے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں لے سکتے، ان کیلئے کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا انہیں جان و مال کے تحفظ کا حق نہیں؟ عدالتِ عظمیٰ نے حکومت اور حکومت کے زیر کنٹرول امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے تمام ذمہ داروں کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ امید ہے کہ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آئے گا تو اس میں بہیمانہ قتل عام کے ذمہ دار چہروں پر سے نقاب ہٹائے جائیں گے۔ اس وقت چونکہ اس معاملے کو از خود نوٹس لے کر سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے‘ اس لئے اس کے ممنکہ محرکات اور ملوث ہونے والے عناصر کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہ ہو گا لیکن قومی سلامتی اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے چند پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا مفید ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کو محض لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اس کی تہہ میں پہنچ کر اس کے حقیقی محرکات کی کھوج لگا کر اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ فساد، انتہا پسندی اور دہشتگردی کو پروان چڑھانے والے عناصر کون ہیں؟ اس کی بہت حد تک نشاندہی سپریم کورٹ کے ایک سابق فاضل جج جناب جسٹس قاضی فیض عیسیٰ اپنی رپورٹ میں کر چکے ہیں۔ جسٹس فیض عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں صورتحال پر قابو پانے کیلئے چند سفارشات بھی پیش کی تھیں لیکن کیا ان سفارشات پر عمل درآمد ہوا؟ صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت بھی اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی۔ صوبائی پولیس کے سربراہ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی کے دیگر واقعات کی وجہ یہ ہے کہ شہر افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب ہے جسے بآسانی عبور کرکے دہشتگرد بلوچستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے دیگر واقعات کی ذمہ داری بیرونی عناصر پر ڈال دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن اور خاص طور پر سی پیک کی وجہ سے ان بیرونی قوتوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے جو پاکستان کو ترقی، خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتیں لیکن بلوچستان میں دہشتگردی اور خصوصاً ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ میں اندرونی عناصر کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا‘ بلکہ بعض حلقوں کے نزدیک انتہاپسندی اور فرقہ واریت کا پرچار کرنے والے عناصر سب سے بڑے مجرم ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان عناصر کو معاشرے میں نفرت اور عدم برداشت پھیلانے کیلئے تقریروں، جلسوں اور جلوسوں کی صورت میں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھٹی ہے حالانکہ چار سال قبل شروع کئے گئے نیشنل ایکشن پلان میں ان عناصر کی سرگرمیوں کو دبانے پر خاص طور پر زور دیا گیا تھا۔ مگر نہ تو قومی اور نہ صوبائی سطح پر نیشنل ایکشن پلان ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہماری کائونٹر ٹیررازم حکمت عملی ڈی ریل ہو چکی ہے۔ پورے صوبے میں چیک پوسٹوں کا جال دہشتگردوں کی نقل و حرکت کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس نے اس چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اہم کامیابیاں حاصل کیں؛ تاہم ہزارہ برادری کے ارکان کے قتل کا نہ رکنے والا سلسلہ بھیانک صورت میں جاری ہے۔ اعداد و شمار کے چکر میں ڈال کر اس جرم پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ناانصافی اور ظلم کی بازگشت اب ملک سے باہر حلقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ قوم کا اپنی حکومت اور اس کے اداروں پر اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے قومی سلامتی، اتحاد اور یکجہتی کیلئے سود مند نہیں۔ اس لئے یہ خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے ہزارہ برادری کے وفد کو آئندہ اس قسم کے واقعات کو سختی سے روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور سپریم کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لے کر حکومت اور اس کے اداروں سے جواب طلبی کی ہے۔ امید ہے کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی آنے والے دنوں میں محفوظ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔