عراقی یادوں کا البم
بغداد کے فردوس سکوائر میں ایستادہ صدام حسین کے دیوہیکل مجسمے کو گرائے جانے کے ٹھیک ایک ماہ بعد (دس مئی 2003) کو میں عمان سے نکلا اور سرحد پر قائم سنسان سرحدی چیک پوسٹ عبور کرتا، راستے میں کہیں کہیں جلے ہوئے ٹینک، توپیں اور فوجی ٹرک دیکھتا براستہ رمادی و فلوجہ بغداد کے فلسطین ہوٹل پہنچا۔
پچھلے ایک ماہ کے دوران ایک عام عراقی کے اردگرد کی روزمرہ دنیا جس تیزی سے بدلی تھی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے عراقیوں نے سکتے کی چادر اوڑھ لی تھی۔ عراقی طبعاً بلند آہنگ ہوتے ہیں مگر مجھ جیسے اجنبیوں کو لگتا تھا جیسے ہزاروں انسانی پتلے گلیوں بازاروں میں ’درد کا حد سے گذر جانا دوا ہوجانا‘ کی تعبیر بنے گھوم رہے ہیں۔
پٹرول پمپوں پر لگی لمبی لمبی قطاروں کے سوا کہیں بھی انسانی شور نہیں تھا۔ پٹرول کا عنقا ہونا صدام کے جانے سے زیادہ اہم تھا۔ ایسے ہی ایک پٹرول پمپ پر میں نے سنا ’پٹرول کیا یہ امریکی سب لے جائیں گے‘۔۔۔
چونکہ ملک سکتے میں تھا اس لیے بدامنی بھی کہیں نہیں تھی۔ میرے ڈرائیور نوری الہندی کے پرکھے تین نسل پہلے بغداد میں آباد ہوئے لہٰذا وہی میرا مترجم بھی تھا۔ ہم دونوں کسی بھی کیفے میں جا کر بیٹھ جاتے اور نوری مجھے بتاتا رہتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دائیں والا کہہ رہا ہے کہ صدام کو امریکیوں نے چھپایا ہوا ہے اور جب سودے بازی ہو جائے گی تو وہ پھر واپس آجائے گا۔ پیچھے والا کہہ رہا ہے کہ عراق کے تین ٹکڑے کیے جائیں گے اور ان میں سے ایک ٹکڑا صدام کے حوالے کر دیا جائے گا
شاید کسی کو یقین نہیں تھا کہ صدام چلا گیا ہے۔ ناصریہ کے آدھے زخمی سرکاری ہسپتال میں ایک ڈاکٹر بات کرتے کرتے اچانک چپ ہوگیا۔ پھر سرگوشی میں کہنے لگا ’باہر چل کے بات کرتے ہیں۔ سامنے والا مخبرات (صدام انٹیلی جینس) کا ایجنٹ ہے‘۔ میں نے کہا صدام تو اب نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ’امریکیوں کا کیا بھروسہ ؟‘
بصرہ برطانوی فوج کے قبضے میں تھا۔ برطانوی فوجی کسی راہگیر سے بات کرتے ہوئے کالا چشمہ اتار لیتے تھے۔ شاید انہیں بریفنگ دی گئی تھی کہ عرب کالا چشمہ پہن کر بات کرنے والوں کو مغرور اور بدتمیز سمجھتے ہیں۔
مگر میں نے کسی امریکی فوجی کو کہیں بھی کالا چشمہ اتار کر بات کرتے نہیں دیکھا۔
نجف میں محمد باقر الحکیم سے ملاقات ہوئی جو طویل جلا وطنی کاٹ کر تازہ تازہ ایران سے لوٹے تھے۔
انھوں نے دورانِ گفتگو ایسا فقرہ کہا جو آج بھی تازہ ہے ’اگر عراقی شیعوں اور سنیوں کو غیر عراقیوں نے ایک دوسرے سے بدظن نہ کیا تو ہم لبنانیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھ لیں گے۔ بصورتِ دیگر عراق اور اردگرد کا خطہ زہریلے سانپوں میں گھر جائے گا‘۔ (تین ماہ بعد باقر الحکیم ایک دھماکے میں ہلاک ہوگئے)۔
مقتدیٰ الصدر (سربراہ مہدی ملیشیا) سے ملاقات کا وقت طے ہوا لیکن پھر ان کے ترجمان نے معذرت کرلی۔
البتہ آیت اللہ علی السیستانی سے پانچ منٹ کی ملاقات کا شرف ضرور حاصل ہوا۔ میں صرف ایک سوال پوچھ پایا اب عراق کا مستقبل کیا ہے؟‘ جواب آیا ’امریکی جتنا جلد چلے جائیں اتنی جلد زخم مندمل ہونے لگیں گے ورنہ یکطرفہ پالیسیاں زخم کو ناسور بنا دیں گی۔‘ (امریکی اور اتحادی آٹھ برس بعد عراق سے لوٹے۔ تب تک زخم ناسور بن چکا تھا)۔
صدام حسین کا عراق جبر تلے ضرور سسک رہا تھا مگر عرب دنیا کی سب سے خواندہ اور پڑھی لکھی مڈل کلاس بھی عراق میں ہی تھی۔ 25 برس میں تین خونریزہ جنگوں، 12 برس کی مسلسل اقتصادی پابندیوں اور اندرونی جبر نے ایک جیتے جاگتے ملک اور سماج کو اندر باہر سے توڑ پھوڑ کے رکھ دیا؟
اس کا اندازہ بغداد کے ایک مسیحی دکاندار (غالباً موافق حداد نام تھا) کے اہلِ خانہ سے مل کر ہوا۔ موافق کی اہلیہ سکول ٹیچر تھیں مگر جنگ کے بعد سکول بند تھے۔ بیٹا دکان پر باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا اور بیٹی میڈیکل سائنس کی طالبہ تھی۔ وہ خوش بھی تھے اور زبان سے نابلد غیرملکی کے بارے میں متجسس اور محتاط بھی۔ جو کچھ گھر میں پکا تھا سامنے رکھ دیا۔
ہر دو منٹ بعد موافق کے منہ سے نکلتا ’ہم آپ سے جو بھی باتیں کر رہے ہیں اس لیے کر رہے ہیں کہ آپ یہاں نہیں رہتے۔ کسی کو بتائیے گا نہیں۔‘
گھر کے دونوں کمروں میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ میں نے انجانے میں پوچھ لیا کہ کیا عراقی گھروں میں فرشی نشست ہی پسند کی جاتی ہے؟ موافق نے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ اس کی بیوی نے دو چار جملے بولے مگر حداد نے میرے ڈرائیور نوری کو شاید ترجمے سے منع کر دیا۔
موافق فیملی سے رخصت ہونے کے بعد میں نے نوری سے پوچھا اس کی بیوی کیا کہہ رہی تھی؟ وہ کہہ رہی تھی کہ ’انہیں بتاؤ کہ ہم اس لیے انہیں فرش پر بٹھا رہے ہیں کہ فرنیچر تو ایک ایک کر کے بک گیا۔ ہمارے ہمسائیوں کے پاس تو مہمانوں کی تواضع کے لیے برتن بھی نہیں بچے۔‘
میں نے ایک جگہ سگریٹ خریدنے کے لیے گاڑی رکوائی۔ پانچ سو دینار کا سگریٹ کا پیکٹ اور سو دینار کی ماچس کی ڈبیہ خرید کر گاڑی میں آ بیٹھا۔ اگلے آدھے گھنٹے تک میں اور نوری بنا بات کیے سفر کرتے رہے۔