بلاگ

فلسطینیوں خاموش! مجھے اسرائیلی بندوقوں کی موسیقی سُننا ہے

تحریر: محمد عثمان جامعی

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادۂ معظم محمد بن سلمان نے کچھ دنوں پہلے فرمان جاری کیا تھا: ’’فلسطینی صدر ٹرمپ کی امن سے متعلق تجاویز قبول کریں یا اپنا منہہ بند رکھیں‘‘ مگر یہ فلسطینی بڑے ہی گستاخ ہیں، ویسے بھی پیغمبروں کی بستی کے مکین شاہوں کو خاطر میں کہاں لائیں گے، انھوں نے ٹرمپ کی تجاویز کے ساتھ سعودی شاہ زادے کا حکم بھی جوتے کی نوک پر رکھا اور مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے خلاف سڑکوں پر سینہ سپر ہوگئے۔ سو اب ان کے سینے سیدھی چلائی جانے والی گولیوں سے چھلنی ہورہے ہیں، جسموں سے لُہو پھوٹ رہا ہے، جان سے جارہے ہیں یا لاشیں اُٹھا رہے ہیں، لیکن شہر مقدس کو امریکی داشتہ صہیونیت کا کوٹھا بننے سے روکنے کے لیے برسر پیکار ہیں۔

پیر کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کی صہیونی خواہش اور امریکی ہٹ دھرمی نے امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے بعد عملی صورت اختیار کی تو عالم اسلام سمیت پوری دنیا پر سکوت طاری رہا، لیکن فلسطینی احتجاج کرتے گھروں سے نکل آئے۔ قابض اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کر کے 55 افراد کو شہید کردیا، جب کہ 2700 سے زائد زخمی کردیے گئے۔

احتجاج اور مظاہرین پر گولیاں برسانے کا یہ خون میں ڈوبا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ ان کی گولیوں کی زد میں آکر زخمی ہونے والوں میں بچے، خواتین اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس ظلم، خوف ناک تشدد اور وحشیانہ سلوک کے باوجود فلسطینی احتجاج کرتے رہے۔

فلسطینیوں پر صہیونی ریاست کے تشدد کا سلسلہ اس سال مارچ سے جاری اور لاتعداد فلسطینیوں کی جانیں لے چکا ہے۔ رواں سال 30 مارچ کو فلسطین کے یوم الارض کے موقع پر فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی واپسی کے عنوان سے اسرائیل کی سرحدی باڑ پار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے ہزاروں فلسطینی اسرائیلی سرحد پر پہنچ گئے تھے، جہاں مظاہرین پر اسرائیلی فوج نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 40 روز میں صحافی سمیت 60 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔

پیر کو امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے اعلان کے فوری بعد فلسطینی سڑکوں پر جمع ہوگئے اور اسرائیلی فوج اور امریکا کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے بیت المقدس کی جانب بڑھتے رہے۔ مظاہرین نے ٹائر جلا کر اپنے احتجاج ریکارڈ کرایا جس پر اسرائیلی فوج نے مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا۔

جب آپ اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے شاید چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت بھی فلسطینی نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے جان ہتھیلی پر رکھے سراپا احتجاج ہوں گے اور اسرائیلی فوجیوں کی گولیاں کسی فلسطینی کے حلقوم، سینے اور سر میں چھید کرکے شیطانی ریاست کے لیے خون کا خراج وصول کررہی ہوں گی۔

ایک جنگ، مسلسل جنگ، جو ستّر سال سے جاری ہے، ایک دن کے لیے بھی نہیں رُکی۔۔۔۔۔ یہ کیسی جنگ ہے۔۔۔ ایک طرف جوہری طاقت کے جدید ترین اسلحے سے لیس فوجی، بندوقیں، ٹینک، میزائل، طیارے۔۔۔۔ اور دوسری طرف ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں، گولیاں روکنے کے لیے جرأت سے لبریز سینے، بندوقوں کی دھاڑ کے جواب میں نعروں کی للکار۔۔۔۔ ایک فریق کا سرپرست اور مربی عالمی وڈیرا امریکا، روس سمیت یورپ کی طاقتیں اس کے مظالم اور کالے کرتوتوں پر چُپ سادھے یا پوری منافقت کے ساتھ کم زور سا احتجاج کرکے اُس کی خاموش حلیف، چین اُس کی سفاکیوں اور استحصال پر منہہ کان اور آنکھیں بند کیے۔

اُمت مسلمہ کا ایک ٹھیکے دار سعودی عرب مکر کی نقاب سرکا کر اُسے تسلیم کرنے کو تیار، ملت اسلامیہ کی امامت کا دعوے دار ایران ریاکاری کا ہنر آزماتے ہوئے بس لفظوں کے گولے برسا کر اور یوم القدس منا کر اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ، عالم اسلام کی قیادت کا خواب آنکھوں میں سجائے تُرکی کا کردار اُس کی زبانی کلامی مخالفت تک محدود، باقی کی مسلم دنیا اور دیگر ممالک خاموش تماشائی۔۔۔۔ اور دوسری طرف تنہا اور نہتے فلسطینی اپنی بقاء کی جنگ اور مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کو صیہونیت کا سیاسی مرکز بنانے سے بچانے کے لیے اکیلے مصروفِ جنگ۔

کتنے مایوس کُن حالات ہیں، زمین سے آسمان تک مکمل اندھیرا، اُمید کی کوئی ٹمٹماتی کرن بھی نہیں، آس کے ایک کے بعد ایک بجھتے دیپ، مگر یہ فلسطینی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ مایوس ہوتے ہی نہیں۔ عشروں سے لڑ رہے ہیں، اپنی دھرتی اپنے جسموں سے بھر رہے ہیں، ننھے ننھے بچوں کی لاشیں دفناتے ہیں، اور ابھی ناخنوں سے چھوٹی سی قبر کی مٹی دُھل بھی نہیں پاتی کہ پھر خونخوار اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ باہر کی تاریکی ان کا کچھ نہیں بگاڑ رہی، روشنی تو ان کے سینوں میں بھری ہے۔

ان کے خون میں پیغمبروں کا عزم، جرأت اور استقامت لہریں مارتی ہیں۔ چناں چہ بم باری سے گھر تباہ کردیے جاتے ہیں، روزگار چھین لیا جاتا ہے، پانی کی راہیں روک کر انھیں قطرے قطرے کے لیے محتاج کردیا جاتا ہے، انھیں ترک وطن پر مجبور کرنے کے لیے ہر جتن کیا جارہا ہے، لیکن وہ اپنی زمین تو کیا اپنی جدوجہد چھوڑنے کے لیے بھی آمادہ نہیں۔

فلسطینیوں کی اس استقامت پر صہیونی اور ان کے پرانے حبیب اور نئے دوست کیوں غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ محمد بن سلمان کے لفظوں میں بھی یہی جھنجھلاہٹ پھنکار رہی ہے۔ ’’فلسطینی اپنی زبان بند رکھیں‘‘ جیسے رعونت بھرے الفاظ تو شاید کبھی اسرائیل کے حکم رانوں اور ڈونلڈٹرمپ سمیت اسرائیلی رکھیل کے ناز اٹھاتے امریکی صدور نے بھی ادا نہیں کیے۔

یہ زہر بھرا جملہ اپنے اندر بہت سے معنی سموئے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کا ولی عہد اور عملی طور پر سعودی مملکت کا بادشاہ بہ الفاظ دیگر فلسطینیوں سے کہہ رہا ہے: ’’بکواس بند کرو، ہمارے آقا، ظل سبحانی، میرے سلطان ڈونلڈٹرمپ امن کے نام پر تمھیں جو خیرات عطا کر رہے ہیں وہ سر جھکا کر ہاتھ بڑھا کر وصول کرو۔ تم جانے کب سے ہمارے لیے مصیبت اور جان کا عذاب بنے ہوئے ہو، تم مسلم اُمہ کی سربراہی اور خیرخواہی اور اسلام کی خدمت کے ہمارے دعوؤں پر سوالیہ نشان اور بدنما داغ بن گئے ہو۔ واشنگٹن سرکار اور ہمارے درمیان مزید قُربت کی راہ میں تم ایک روڑا ہو، جسے ہم آل سعود اپنے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ردعمل کی خوف سے ٹھوکر نہیں مار پاتے، اس لیے مجبوراً دھیرے دھیرے سرکا رہے ہیں۔ اب اپنے ہونٹوں پر تالا ڈال کر چُپ چاپ وہ کھیل دیکھو جو تم سے کھیلا جارہا ہے۔‘‘

محمد بن سلمان یہ نہیں بھی کہتے تو سعودی عرب کی حالیہ قیادت کے اقدامات فلسطینیوں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ سعودی قیادت کیا چاہتی ہے۔ یوں بھی فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد کے لیے سعودی اعانت احتجاج اور اخلاقی امداد سے ایک قدم بھی کبھی آگے نہیں بڑھی ہے۔ لہٰذا اپنی جنگ آپ لڑتے فلسطینیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی غم گساری اور ملت اسلامیہ کی غم خواری کے دعوے دار کب اپنے عمل کی طرح دعوؤں پر بھی سیاہی پھیر دیتے ہیں۔

اس وقت فلسطینی ایک ایسے شہر کے تقدس کے لیے میدان میں آئے ہیں جو امت مسلمہ کے لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسرا پاکیزہ ترین شہر ہے، جسے ہر مسلمان پوری عقیدت کے ساتھ قبلۂ اول کہتا ہے۔ لیکن قبلۂ اول کو بچانے کی جنگ صرف فلسطینی لڑ رہے ہیں کوئی اور مسلم قوم اس معرکے میں صف اول تو کجا ان کی پشت پر بھی نہیں۔ سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے یمن پر جنگ مسلط کرنے سے گریز نہیں کرتا، شام میں اپنے وسائل جھونک دیتا ہے، اپنی جنگ بازی کے لیے دنوں میں اسلامی عسکری اتحاد بنا کے کھڑا کردیتا ہے (جس کی سیادت ہمارے ’’ہیرو‘‘ راحیل شریف کے حصے میں آئی)، امریکا کے اشارے پر افغانستان میں پوری قوت سے ’’شریک جہاد‘‘ہوجاتا ہے۔

اسی طرح ایران بشارالاسد جیسے جلاد آمر کی حکومت بچانے کے لیے اپنے فوجیوں اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں موجود اپنے ہم نواؤں کو ارض شام پر کٹوا دینے سے دریغ نہیں کرتا، مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھانے پر مُصر ترکی شامی سرزمین پر سینہ تان کر بم برساتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن مسلم دنیا کے یہ ’’قائدین‘‘ اور اسلام کے یہ محافظ اسرائیلی سرحد تو کیا اسرائیل کے سائے سے بھی دور ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کو تحفظ دینے کے لیے ان ممالک نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، لیکن اسلام کے یہ پاسبان بیت المقدس کی پامالی پر بھی ’’غم و غصے کی لہر‘‘ سے زیادہ کچھ نہ دکھا سکے۔ یہ لہر بھی کچھ دن چنگاریاں اُڑا کر سرد پڑ چکی ہے۔ رہی اسلامی ممالک کی تنظیم تو یہ اقتدار کی مصروفیات سے تھک جانے والے مسلم دنیا کے حکم رانوں کی گپ شپ کی بیٹھک کے سوا کچھ نہیں۔

اس معاملے میں مسلم دنیا کی واحد جوہری قوت پاکستان کا کردار بھی کچھ کم افسوس ناک نہیں۔ ہمارا کردار بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر احتجاج تک محدود ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہونے لگی تھیں، لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ ریاستی سطح پر کردار سے قطع نظر اب لگتا ہے کہ جیسے فلسطین کا معاملہ جو کبھی دلوں کو گرما دیتا تھا، اب بھولی ہوئی داستان اور گزرا ہوا خیال بن کے رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے ریاست اور شہریوں کو افغانستان پر روس کی یلغار اور امریکی حملے کے بعد جس طرح استعمال کیا، اس کے نتائج نے ہمارے شدید مسائل سے دوچار کرنے کے ساتھ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیٹر تُو‘‘ کی خود غرضانہ سوچ کا شکار بھی کر دیا ہے۔

فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے اور مشرق تا مغرب کسی کی آنکھ میں آنسو تک نہیں۔ محمد بن سلمان نے جو بات کہہ دی، لگتا ہے سارے حکم راں خاص طور پر مسلم دنیا کے صاحبان اقتدار فلسطینیوں کو انھی الفاظ میں جھڑک رہے ہیں، ’’فلسطینیوں اپنا منہہ بند رکھو، خون کا بہتا دریا دیکھو، لیکن زبان سے اُف تک نہ نکلے، اپنے کم سِن بچوں کی لاشیں زمین میں اُتارتے رہو، لیکن سسکی بھی بلند نہ ہو، تمھارے شہر لُٹیں عزتیں پامال ہوں لیکن خبردار جو حرف انکار بلند کیا۔۔۔۔ چُپ، ایک دم خاموش، ہماری نیند میں خلل مت ڈالو، ہم امریکی محبوب کے ساتھ ملن کا گیت گارہے ہیں، تمھاری آواز مخل نہ ہو۔‘‘

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close