خواب پرست دوستوں کی طرح تمنا تو میری بھی بہت ہے
ترکی اور پاکستان کا خواہشاتی موازنہ کروں مگر موازنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں ملتا کہ ترکی میں بھی فوج نے چار بار جمہوریت کا تختہ الٹا اور پاکستان میں بھی۔
ترکی میں بھی پہلے منتخب وزیرِ اعظم (عدنان مندریس) کو فوجی جنتا نے پھانسی دی اور بعد میں ایک پاکستانی جنرل کو بھی حوصلہ ملا کہ منتخب وزیرِ اعظم لٹکانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔
حالانکہ کمال اتاترک نے سپاہی ہونے کے باوجود سنہ 1938 میں حاضر سروس فوجیوں کا سیاست میں عمل دخل ممنوع قرار دے دیا تھا۔
حالانکہ محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے فوراً بعد نوکر شاہوں اور جنرلوں کو ایک سے زائد مرتبہ تنبیہہ کی کہ ان کے لیے سیاست کا پھل سور برابر ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ اتاترک اور جناح صاحب کے دور تک امریکہ بس ایک ملک تھا۔ دنیا پر طاری ہونے والی کیفیت نہیں بنا تھا۔
چنانچہ اس کیفیت کے تحت پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لاطینی امریکہ سے انڈونیشیا تک فوجی جنتا کی حکمرانی فیشن اور استحکام کا استعارہ ہوگئی۔ کیونکہ سوویت یونین سے لنگوٹ کس سرد جنگ بھی تو لڑنا تھی۔ اتحادوں کے ڈورے ڈالے گئے۔ ترکی نیٹو اور سینٹو میں اور پاکستان سینٹو اور سیٹو میں گھسیٹا گیا اور سنہ 1958 میں پاکستان کو اور سنہ 1960 میں ترکی کو جنرل ایوب خان اور جنرل جمال گرسل کی شکل میں ایک ایک مردِ آہن عطا ہو گیا۔
فوج ایک بار خیمے میں گھس جائے تو بمشکل ہی نکلتی ہے۔ لہٰذا ترکی میں فوج نے سیکولرازم کے محافظ کے طور پر اپنا آئینی کردار پکا کرلیا اور پاکستان میں مستقبل کی سویلین حکومتوں کے لیے روبوٹ فیکٹری قائم ہوئی جنھیں خاکی ریموٹ کنٹرول پر رکھا جا سکے۔
جب جب پاکستان میں فوجی حکمرانی سے بیزاری مقررہ حد سے بڑھ جاتی تو سویلینز کو موقع مل جاتا اور جب سویلینز اپنے ہی سیاسی کچا پن اپنے ہی گلے کا پھندہ بنا لیتے تو فوج پھر تازہ دم حکمرانی کے لیے تیار ہوتی۔
جبکہ ترک فوج کا عمل دخل بطور ریفری چونکہ آئینی طور پر پہلی پاری میں ہی حلال کر لیا گیا تھا لہٰذا وہاں فوج کو پاکستان کے برعکس کبھی بھی تین، چار، پانچ برس سے زیادہ براہِ راست اقتدار میں رہنے کی ضرورت نہ پیش آئی۔
فوج نے ترکی میں آخری حکومت سنہ 1997 میں گرائی جب نجم الدین اربکان کو معزول ہونا پڑا اور فوج کی ہم قدم عدلیہ نے اربکان کی ویلفیئر پارٹی تحلیل کردی۔ ویلفیئر کے جسد پر جواں سال عبداللہ گل اور رجب طیب اردوغان وغیرہ نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اٹھائی جو پہلی بار سنہ 2002 میں بھاری اکثریت سے اقتدار میں آ گئی اور اب تک ہے۔
سوال یہ ہے کہ اردوغان اینڈ کمپنی کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ انھوں نے فوج کی اقتداری خواہشات کو بتدریج قابو کر لیا؟ بڑا سیدھا سا نسخہ تھا۔ پارٹی کو ملک گیر بنانے کی کوشش کرو، معیشت پر سنجیدگی سے توجہ دے کر اس سے عام آدمی کا مفاد جوڑو اور ووٹ بینک کو توسیع دے کر پکا کرو۔ اس بیچ اتاترک کے نظریے سے مفت کی چھیڑ خانی مت کرو اور سنہ 1984 سے جاری کرد علیحدگی پسند تحریک دبانے کے حساس معاملے پر فوج کے ساتھ ہم آہنگ رہو۔ جب تم جمہوری و دفتری طور پر مضبوط ہو جاؤ تب کہیں جا کے فوج کا سیاسی کردار سمیٹنے پر توجہ دو۔
چنانچہ شروع کے آٹھ برس معیشت پر توجہ دی گئی۔ افراطِ زر نوے فیصد سے کم کر کے ساڑھے چھ فیصد تک لایا گیا۔ معیشت میں پہلے پانچ برس سات فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھوتری ہوئی اور اس وقت اوسط اضافہ پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے۔
آج ترکی کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 135 ارب ڈالر ہیں۔ ترکی 18ویں بڑی عالمی معیشت ہے جس میں خواندگی کا تناسب 98 فیصد ہے۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کا تناسب 17 فیصد رہ گیا
ہے۔
شہری مڈل کلاس کو اگر اعتراض ہے تو اردوغان کے سخت گیر طرزِ حکومت پر۔ مگر قصباتی و دیہی آبادی اردوغان کا پکا ووٹ بینک ہے۔ حزبِ اختلاف کو اردوغان کے شاہانہ مزاج سے یقیناً شکایت ہے۔ امن و امان کے حالات بھی شامی خانہ جنگی اور کرد علیحدگی پسندی میں شدت کے سبب خراب ہیں لیکن سنیچر 15جولائی کی شب فوجی بغاوت کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ تھیں۔
کچھ دوست پوچھ رہے ہیں ترکی کی طرح پاکستان میں اگر پانچویں ’کو‘ کی کوشش ہوتی ہے تو کیا اسے روکا جا سکتا ہے؟ میں ان سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسی ملک گیر سیاسی قوت ہے جس کا ووٹ بینک اس پر مسلسل اعتماد کر سکے اور کسی نجات دہندہ کا خیال اس کے ذہن میں نہ آئے۔ کیا معاشی و سماجی ترقی کے جمہوری ثمرات سے عام آدمی کو اتنا جوڑا گیا کہ انھیں بچانے کے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے؟
ترک رپبلک کو 15 جولائی کے یومِ عوام تک پہنچنے میں سنہ 1923 سے اب تک 93 برس لگے۔ ہم تو اب تک پانچ جولائی سنہ 1977 میں گول گول گھوم رہے ہیں۔