بلاگ

پاکستان کے مہمان وزیرِ اعظم

شاید کچھ لوگوں کو یہ یاد ہو کہ شوکت عزیز تین سال تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے (یعنی اگست 2004 سے نومبر 2007 تک) اور 1999 سے ملک کے وزیر خزانہ بھی۔

وہ وزارت اعظمی کے عہدے پر اس دوران فائز رہے جب کئی اہم اور ڈرامائی واقعات پییش آئے، لال مسجد کے عسکریت پسندوں کا حکومت سے تصادم، ملک بھر میں وکلا تحریک، تباہ کن زلزلہ، جلا وطن اہم سیاسی رہنماؤں کی وطن واپسی، تحریک طالبان پاکستان کے جان لیوا حملوں اور کارروائیوں میں تیزی، پاکستان کے شمالی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں تیزی وغیرہ وغیرہ۔ یعنی وہ پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم دور میں وزیر اعظم رہے لیکن ان کی نئی کتاب سے اس بارے میں نہ کوئی انکشافات ہیں اور نہ کوئی نئی معلومات یا تجزیہ۔

سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کتاب کا عنوان ہے ’فرام بینکنگ ٹو دا تھارنی ورلڈ آف انٹرنیشنل پولیٹکس‘ یعنی یہ پیش آور بینکر کی بین الاقوامی سیاست کے کلب تک کے سفر کی کہانی ہے۔ اس کتاب کی نمایاں بات یہ ہے کہ جس انداز میں یہ لکھی گئی ہے وہ ایک اہم کردار کے نکتہ نظر سے نہیں ہے بلکہ ایک مبصر کے نکتہ نظر سے۔ یعنی جس انداز میں کہانی بیان کی گئی ہے کافی حد تک شوکت عزیز نے اپنے کے دور اقتدار میں ہونے والے حالات اور واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔

یہ کہنا تو شاید ٹھیک ہو کہ اس وقت اصل اقتدار تو فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں میں تھا، لیکن پھر اس سوال کا جواب بھی تو کتاب میں نہیں ہے کہ آخر اگر ایسا ہی تھا تو پھر شوکت عزیز ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے پر راضی کیوں ہوئے؟ وہ اپنے اس عہدے پر تعیناتی کے انتظامات کے بارے میں بلا جھجک اور بلا شرمندگی لکھتے ہیں کہ ان کے لیے دو حلقوں پر انتخاب کا بندوبست کیا گیا، ایک حلقے (اٹک) کا بندوبست چوہدری شجاعت حسین نے کیا تو دوسرے (تھرپارکر) کا انتظام ارباب غلام رحیم نے، یعنی دونوں حلقے ان کے لیے خالی کروائے گئے اور وہاں سے ان کو منتخب کروایا گیا (ان کو اس سے پہلے سینیٹر بنا دیا گیا تھا)۔ اس کے باوجود وہ سنجیدگی سے اپنی انتخابی ’کیمپیننگ‘ کا ذکر کرتے ہیں۔

شوکت عزیز پاکستان میں پلے بڑھے، پاکستان میں ہی انھوں نے تعلیم پائی اور وہ بینکاری میں ایک اعلی عہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ لیکن اکتوبر 1999 میں وہ جب نیو یارک سٹی بینک کے ساتھ (بقول ان کے ایک کارنر آفس کے مالک) تھے تو ان کو جنرل پرویز مشرف کا فون آگیا۔ جنرل مشرف میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ چکے تھے، میاں صاحب کو گرفتار کروا چکے تھے اور بقول ان کے وہ پاکستان کو بچانے کے مشن پر چل پڑے تھے۔ فون پر بات کرتے ہوئے جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزارت خزانہ و تجارت سنبھالنے کی دعوت دی۔

اس کتاب میں شوکت عزیز لکھتے ہیں کہ جب وہ اس بارے میں جنرل مشرف سے بات کرنے کے لیے پاکستان پہنچے تو پہلے تو ان کا ’انٹرویو‘ فوج کے مرکز جی ایچ کیو میں کچھ جرنیلوں نے کیا جس کی رہنمائی جنرل عزیز کر رہے تھے۔ کتاب میں بیان کیا گیا یہ ایک خاصہ دلچسپ واقعہ ہے۔

تو کیا وہ بطور وزیر خزانہ کامیاب رہے؟ ان کے دور میں قومی قرض کم کیا جا سکا اور بیرونی سرمایا کاری (فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) میں نمایاں اضافہ ہوا۔ شوکت عزیز خود اپنی پالیسیوں کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان پالیسیوں کا طویل دورانیے میں کوئی مثبت اثر کیوں نہیں ہو سکا۔

یہ بات تو کسی حد تک سمجھ آتی ہے کہ فنانس اور اقتصادی شعبے میں کام کرنے والے شخص کو اپنے ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کا موقع ملے تو وہ یہ موقع ہاتھ سے نکلنے نہ دے، لیکن اس کتاب سے یہ جواب نہیں ملتا کہ شوکت عزیز نے اس حکومت کی وزارت اعظمی کا عہدہ کیوں سنبھالا؟

اور وزیر اعظم کیا، اس کتاب سے تو لگتا ہے کہ شوکت عزیز صاحب وزیر خارجہ یا بین الاقوامی امور کے خصوصی مندوب تھے۔ کتاب ان کے عالمی رہنماؤں اور مشہور شخصیات سے ملاقاتوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ ’کوفی عنان نے مجھ سے کہا۔۔۔ صدر بش نے مجھے بتایا ۔۔ شاہ عبداللہ نے مجھے کھانے کی دعوت دی۔۔۔رمزفیلڈ نے بعد میں مجھے بتایا۔۔بینظیر بھٹو میرے گھر آئیں۔۔۔‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بہت ساری معروف عالمی شخصیات کے ساتھ ان کی تصاویر بھی کتاب میں شامل ہیں، بہت ساری خوبصورت تصاویر۔

یہ کتاب شوکت عزیز نے برطانوی اخبار ’دا سنڈے ٹائمز‘ کی صحافی اینا میکھائلووا کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ کتاب کے دیگر باب تاریخ کی ترتیب سے چونکہ مرتب نہیں ہیں اس لیے سابق وزیر اعظم کے دور حکومت کی مفصل تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔ یہ کتاب انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان کے عوام کے نام کی ہے لیکن ستم ضریفی یہ ہے کہ ان کے سیاسی کیرئیر کے دوران اور اس کے بعد بھی شوکت عزیز کا پکستان اور پاکستانیوں سے کم ہی رابطہ رہا ہے۔ ان کے پبلشرز نے کتاب کے حوالے سے

ایک انٹرویو کی تاریخ مقرر کی تو فٹ سے سابق وزیر اعظم کے دفتر سے انٹرویو دینے سے معذرت کر لی گئی۔

یہ کتاب شاید پاکستانیوں کے لیے نہیں لکھی گئی اور نہ ہی شاید تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے۔ یہ کتاب سابق وزیر اعظم کی تشہیر اور بین الاقوامی اداروں کے لیے البتہ مفید ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close