سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت
دنیا کے باشعور افراد کا ماننا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لیے تمام آبادی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دنیا کی نصف آبادی تو گھر بیٹھے، اور پھر ہم یہ توقع بھی کریں کہ دنیا جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔ دراصل یہاں ’نصف آبادی‘ خواتین کی طرف اشارہ ہے جو نصف اب سے کچھ سال پہلے تک تھیں، اب ان کی تعداد مردوں سے دگنی ہوچکی ہے۔
اکیسویں صدی کے دور میں اب یہ محاورہ پرانا ہوچکا ہے، ’ایک کمانے والا اور دس کھانے والے‘۔ جدید دور میں وہی گھرانہ یا قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کم از کم 8 ’کمانے والے‘ موجود ہیں، اور خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔
حمیدہ خاتون بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں مگر ان کی کم علمی ان کے پیروں کی زنجیر ہے۔
حمیدہ خاتون سومار گوٹھ کی رہائشی ہیں جو کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ساحلی گاؤں ہے۔ سمندر کنارے واقع، 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے مردوں کا پیشہ تو مچھلی پکڑنا ہے البتہ خواتین صرف گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور گاؤں کی معیشت میں ان کا کوئی کردار نہیں۔
گاؤں دیہاتوں میں عموماً خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ کچھ دیہاتوں میں پانی کی سہولت نہ ہونے باعث وہ میلوں دور پیدل چل کر جاتی ہیں اور پانی بھر کر لاتی ہیں۔ لیکن سومار گوٹھ ان تمام دیہاتوں سے نسبتاً ’جدید‘ گاؤں ہے۔ یہاں باتھ روم بھی ہیں، اور پائپوں سے متصل نلکے بھی، جن میں ہفتے میں چند دن پانی آہی جاتا ہے
اس گاؤں کا اصل مسئلہ غربت ہے۔
کبھی یہاں آباد گاؤں والے بہت خوشحال ہوا کرتے تھے۔ سمندر میں مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ بہت کچھ تبدیل ہونے لگا۔ شہری آبادی نے جہاں سمندروں کو آلودہ کر کے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، وہیں سمندری حیات بھی اس سے محفوظ نہ رہی۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے فضلے نے کمزور سمندری حیات کا تو وجود ختم کردیا، جو ذرا سخت جان تھیں، وہ یہ وار سہہ گئیں لیکن اس قابل نہ رہیں کہ کسی انسان کی خوارک بن سکتیں۔
حمیدہ خاتون کے مطابق جب حالات بہتر تھے تو ’مندی‘ کے دن بھی آسانی سے گزر جاتے تھے۔
یہ ’مندی‘ دراصل ان 4 مہینوں میں آتی ہے جن دنوں سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور مچھیرے سمندر میں نہیں جا پاتے۔ مچھیروں کی کشتیاں کمزور ہیں اور سمندر کی تیز، چیختی چنگھاڑتی لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ یہ 4 مہینے مچھیرے تقریباً گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے جالوں اور کشتیوں کی مرمت کرتے ہیں۔
حمیدہ خاتون بتاتی ہیں کہ جب حالات اچھے تھے تب تو تصور ہی نہیں تھا کہ عورتیں کچھ کمانے کی کوشش کریں۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور مرد بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ خواتین کو باہر جانے کی اجازت دیں۔
لیکن خواتین کے پاس نہ ہی تو تعلیم ہے، نہ کوئی ہنر۔ کچھ خواتین نے شہروں میں جا کر قسمت آزمائی کی تو انہیں گھروں میں صفائی کرنے کا کام مل گیا۔ لیکن شہر میں رہائش، کھانا پینا اور ہفتے میں ایک بار گاؤں آنے جانے کے اخراجات اتنے تھے کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر والوں کو کچھ نہ دے پاتیں یوں انہوں نے واپس گاؤں آنے میں ہی عافیت جانی
حمیدہ خاتون کی ایک اور رشتہ دار نوجوان خاتون زیتون نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ جب گاؤں میں پولیو مہم شروع ہوتی ہے تو انتظامیہ کو خواتین رضا کاروں کی تلاش ہوتی ہے۔ تب وہ اس موقع کو حاصل کرتی ہیں اور گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ 3 یا 4 دن تک جاری اس پولیو مہم میں حصہ لینے کے انہیں 2 ہزار روپے ملتے ہیں۔
ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی بچے وافر تعداد میں تھے۔ میں نے سوال کیا کہ، جب لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہے، اور وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی تعداد میں بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟
میرا سوال سن کر حمیدہ بی بی اور زیتون ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔ شاید انہوں نے اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔ بعد میں حمیدہ بی بی نے دھیمی آواز میں کہا، ’کیا کریں مرد سنتے ہی نہیں ہیں‘۔
حمیدہ بی بی کا شوہر شکار کے دوران کشتی میں گر پڑا تھا جس کی وجہ سے اسے کمر میں شدید چوٹ آئی۔ اب وہ کوئی کام کرنے سے محروم ہے اور پچھلے ایک سال سے گھر میں ہے۔ حمیدہ بی بی نے بعد ازاں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’وہ میرا شوہر ہے۔ ایک سال سے گھر پر پڑا ہے۔ بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے‘۔
یہ کہہ کر وہ ڈوپٹے کے پلو میں منہ چھپا کر ہنسنے لگی۔
گاؤں کے بچے گرین کریسنٹ نامی تنظیم کی جانب سے قائم کردہ ایک اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اسکول میں صرف 50 یا 100 روپے (پڑھنے والے کی مالی استعداد کے مطابق) فیس وصول کی جاتی ہے۔ دو کمروں پر مشتمل صاف ستھرا اسکول حقیقی معنوں میں گاؤں کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔
لیکن یہ اسکول صرف مڈل تک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی اور تعلیمی ادارہ نہیں۔ گاؤں والے اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے کہیں اور بھیج سکیں، یوں بچے تعلیم حاصل کرنے اور ان کے والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی حسرت دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔
حمیدہ خاتون نے اپنی بیٹی سے بھی ملوایا۔ ’اس نے اس سال اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں‘۔ حمیدہ بی بی نے فخر سے بتایا۔
سندھ کے بے شمار دیہاتوں کی طرح سومار گوٹھ بھی ایک محروم گاؤں ہے۔ سندھ میں لاتعداد گاؤں ایسے بھی ہیں جو بنیادی سہولتوں سے اس حد تک محروم ہیں کہ وہاں جا کر آپ خود کو پندرہویں صدی میں محسوس کرتے ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ گاؤں ترقی کر کے جلد جدید دنیا کے ساتھ آ کھڑا ہوگا لیکن گاؤں والوں کے دل خوش فہم کو امیدیں باقی ہیں، اور یہی ان کے جینے کا سہارا ہیں۔